Friday, June 2, 2023

Two Hundred Years Ago- English Education Act -


آج سےتقریبا دو سو سال پہلے 

برصغیر میں سکول نہیں بلکہ مدرسے ہوتے تھے 

جہاں دین اور دنیا یعنی

( قرآن مجید، حدیث مبارکہ اور جدید سائنس) 

دونوں کی تعلیم دی جاتی تھی۔ 

پھر لارڈ میکالے آ گیا۔

برصغیر پاک و ہند میں سکول و کالج کے تعلیمی نصاب کا مرتب مسٹر لارڈ میکالے ہے. 

یہ ایک عیسائی اور خفیہ تنظیم کے کلب کا ممبر تھا 

جو 1834ء میں ہندوستان آیا 

اور گورنر جنرل کی کونسل میں پہلا رکن برائے قانونی امور تعینات ہوا.

اِس نے برطانیہ کی پارلیمنٹ میں 1835ء میں ایک قرارداد پیش کی 

جس کے کچھ حصے کا ترجمہ یہ ہے:

میں نے ہندوستان کے طول و عرض میں سفر کیا ہے، 

مجھے کوئی بھی شخص بھکاری یا چور نظر نہیں آیا. 

اِس ملک میں مَیں نے بہت دولت دیکھی ہے، 

لوگوں کے اخلاقی اقدار بلند ہیں 

اور سمجھ بوجھ اتنی اچھی ہے کہ 

میرے خیال میں ہم اُس وقت تک اِس ملک کو فتح نہیں کر سکتے 

جب تک ہم اِن کے دینی اور ثقافتی اقدار توڑ نہ دیں، 

جو اِن کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں. 

اس لیے میں یہ تجویز کرتا ہوں کہ 

ہم ان کا قدیم نظامِ تعلیم اور تہذیب بدل دیں 

کیوں کہ اگر ہندوستانی لوگ یہ سمجھیں گے کہ 

ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اپنی اشیا سے بہتر ہے 

تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھو دیں گے 

اور حقیقتاً ویسی ہی مغلوب قوم بن جائیں گے 

جیسی ہم انہیں بنانا چاہتے ہیں.""

میکالے کی اس قرارداد کے بعد کیا ہوا ؟

انگریزوں نے اُسے ہی ہندوستان کے لیے نظامِ تعلیم مرتَب کرنے کا کام سونپا 

اور اُس نے پوری شَیطانیت سے نصاب مرتب کیا، 

جسے حکومت برطانیہ نے ہاتھوں ہاتھ لیا.

اُس زمانے میں چونکہ ہندوستان میں عربی، فارسی اور اردو زُبان یعنی ہماری اپنی زبانوں میں علوم وفنون اور حکمت سکھائی جاتی تھی، 

اِسے انگریزی میں بدلنے کے لیے :

قانون برائے انگریزی زبان

 (English Education Act)

بنایا گیا.

یاد رہے کہ 

میکالے ہندوستانیوں کو جب انگریزی الفاظ پڑھانے پر زور دے رہا تھا 

اُس وقت انگریز بذاتِ خود طب، کیمیا، برقیات، دھات کاری اور معدنی وسائل سے متعلق تعلیم حاصل کر رہے تھے جو کہ ہمارے آباو اجداد نے کئی صدیاں پہلے ان پر کتابیں لکھ دیں تھیں

 آخر کار............

انگریزی نظامِ تعلیم رائج ہو گیا.

اس نصاب نے کافروں کی کس خواہش کو پورا کرنا تھا 

یہ میکالے ہی کی زبانی سنیے............... 

ایک ایک لفظ زہر میں بجھا ہوا ہے :

"ہمیں ایسی نسل تیار کرنی چاہیے 

جو دیسی آبادیوں کے لیے ہمارے افکار و نظریات کی ترجمان ہو 

اور جو رنگ و نسل کے اعتبار سے بلاشبہ ہندوستان کے باشندے ہوں 

لیکن فکر، نظر، سیرت، کردار، عادات اور اخلاق کے اعتبار سے خالص انگریز ہوں "

پھر اعلٰی تعلیم یافتہ غلام تیار ہو گئے !


No comments:

Post a Comment