Sunday, July 31, 2022

Hazrat Umar Farooq [Radiyal Laah Anha] & the Desire of the Holy Prophet (Sallal Laahu Alaiehi Wa Sallam)

Hazrat Umar Farooq [Radiyal Laah Anha] & the Desire of the Holy Prophet
 (Sallal Laahu Alaiehi Wa Sallam)


نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم 
بسم اللہ الرحمن الرحیم
’’کفٰی بالموت واعظا یا عمر‘‘اپنی انگوٹھی پر جس ہستی نے یہ جملہ نقش کروایا تھا، اس ہستی کے نزدیک موت سے بڑی کوئی نصیحت نہیں تھی۔ اس ہستی کا عہد خلافت 1435سالہ اسلامی تاریخ کا ’’زرین باب‘‘ شمار ہوتا ہے۔ اس ہستی کو حضرت سید نا عمر الفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ عمر کی خوبیاں بیان کرنے کو بھی اک عمر چاہیے۔ قرآن واحادیث اور سیرت وتاریخ میں ان کا تذکرہ ہے اور خوب ہے ۔
میرے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چاہا اور وہ مراد رسول کہلائے ۔ یہ اس چاہت کا اعجاز تھا کہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے میرے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی نسبتوں کو والہانہ چاہا اور ادب ومحبت کی مثالی یادگاریں قائم کیں۔
پہلے سیدنا فاروق اعظم کا کچھ تعارف ملاحظہ ہو۔
نام:عمر بن الخطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن ریاح بن عبداللہ بن قرط بن رزاح بن عدی بن کعب بن لوئی۔ القرشی العدوی۔
کنیت :ابو حفص ۔لقب:الفاروق (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا کیا)۔
والدہ:حَنْتَمہ بنت ہاشم بن المغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم۔ 
ولادت: عام الفیل کے تیرہ سال بعد اور حرب فِجار اعظم سے چار سال قبل مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
وفات:ذی الحجہ 23ہجری کے آخری دنوں میں فجر کی نماز پڑھانے مسجد نبوی میں تشریف لائے محراب میں کھڑے ہوئے تو ابو لولؤ فیروز مجوسی نے دو دھاری خنجر کچھ اس طرح گھونپا کہ آنتیں کٹ گئیں۔ یکم محرم

24ہجری (644ء)کو حضرت صھیب رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت سعید(یہ پانچوں اصحاب نبوی عشرہ مبشرہ میں سے ہیں)اور حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے تدفین کی۔(عمر تقریباً 62برس)وہ دعا کرتے تھے کہ اُنہیں شہر رسول میں شہادت نصیب ہو۔ اللہ کریم نے ان کی یہ آرزو بھی پوری فرمائی۔ میرے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو میں آرام فرما ہیں۔
(رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سفر ہجرت سے شمار کیا جانے والا اسلامی کیلنڈر سرکاری طورپر حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے رائج کیا۔ اسلامی تقویم کے سال کی پہلی تاریخ خود انہی کی یاد سے وابستہ ہوگئی)
مدت خلافت:10سال 6ماہ اور چند دن
حلیہ: بہت صاف (گورا)رنگ (سرخ وسپید)،دراز قد، دونوں ہاتھوں کی قوت اور حرکت یکساں ،مضبوط جسم، گھنے بال، بار عب شخصیت
ازواج:زینب بنت مظعون، ملیکہ بنت جرول الخزاعی، عاتکہ بنت زید، قُریبہ (ام المومنین حضرت ام سلمہ کی بہن)۔جمیلہ بنت ثابت اور مخدومۂ کائنات، ام لسادات حضرت سیدہ فاطمہ زہرا کی بیٹی حضرت ام کلثوم 
اولاد:عبداللہ۔عبدالرحمن الاکبر۔ عبدالرحمن الاصغر۔عبیداللہ۔ عاصم۔ زید۔ حفصہ۔رقیہ 
قبول اسلام:اعلان نبوت کے 6برس بعد مسلمان ہوئے۔اس وقت عمر 27برس تھی ان سے پہلے 39مرد اور گیارہ عورتیں مسلمان ہوچکی تھیں۔ 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ الرسول پکارا جاتا تھا۔ ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ خلیفہ رسول اللہ پکارا جانے لگا۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ طویل لقب ہے۔ آپ ہم اہل ایمان کے امیر ہیں، ہم آپ کو امیر المومنین پکاریں گے۔ پہلی مرتبہ امیر المومنین کے لقب سے حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو پکارا گیا۔ عشرہ مبشرہ میں سے ہیں۔ رسول پاک نے انہیں اپنا وزیر بھی فرمایا۔ 
44ملک فتح کیے۔ عناصر اربعہ (آگ، ہوا، پانی اور مٹی)پر بھی حکمرانی فرمائی۔ دنیا کو متعدد نظامِ کار دیے۔ امت مسلمہ پر بہت احسان کیے اور ایسے کار ہائے نمایاں انجام دیے کہ غیر مسلم بھی معترف ہوئے اور یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ حضرت عمر کو دس برس اور ملتے تو دنیا بھر میں اسلام کی پُرامن حکمرانی ہوتی۔ 
رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوسکتا تو ضرور عمر ہوتے۔ اس ایک ارشاد ہی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شخصیت واضح ہوجاتی ہے۔ ایک ارشاد ان کو اورنمایاں کرتا ہے۔ میرے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آسمان کے تاروں کے برابر نیکیاں عمر فاروق کی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عطاء سے سب کچھ جاننے والے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاروں کی تعداد اور تمام انسانوں کے احوال سے باخبر ہیں۔ سفر معراج سے واپسی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر کو یہ مژدہ بھی سنایا کہ جنت میں عالی شان محل ان کے لیے دیکھا ہے۔ وہ دہن جس کی ہر بات وحی خدا، ان کے اس فرمان ذی شان نے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی عظمتِ صداقت پر ہر شک کی راہیں مسدود کردیں ۔ دین حق میں ان کی صلابت اور موافقت کی تائید ارشادات ربانی نے کی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قلب ولسان کے لیے حق سے وابستگی کی ضمانت ارشاد فرمادی یہ بھی فرمایا کہ شیطان وہ راستہ ہی چھوڑ دیتا ہے جس راستے سے عمر گزرتا ہے ۔ حفاظت کی یہ سند واضح کرتی ہے کہ فاروق اعظم کے سامنے کسی باطل کے پنپ نے کی کوئی گنجائش نہیں۔
’’لَا یَخْدَعْ وَلَا یُخْدَعْ‘‘ نہ دھوکا دیتا ہے نہ دھوکا دیا جاسکتا ہے۔ فاروق اعظم کے لیے یہ جملہ ان کے کردار کی بہترین تصویر وتعبیر ہے۔ سوکھے ٹکڑے کھانے والے وہ امیر اپنی رعایا کی نگہداشت اور خوش حالی کے لیے رات بھر گشت کرتے ہیں اور میزان عدل پر معمولی سی آنچ نہیں آنے دیتے۔ 
اب ملاحظہ ہوکہ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں اپنا تعارف خود کس طرح کرواتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں:’’کنت عبدہ وخادمہ‘‘میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عبد یعنی غلام اور خادم تھا۔ ان کی عزت ہی نسبتِ رسول تھی۔ ان کی بیٹی کو ام المومنین ہونے کا مرتبہ ملا اور وہ خود خاندان رسول کا فرد ہونے کے لیے مولائے کائنات حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کی بیٹی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی سے عقد مسنون کرتے ہیں کیوں کہ قیامت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے رشتے ناتے برقرار رہیں گے۔ 
مستند کتابوں میں یہ واقعہ درج ہے۔ امیر المومنین سیدنا فاروق اعظم کے فرزند حضرت عبداللہ اپنے والد سے ملنے ان کے گھر آتے ہیں۔ امیر المومنین کو بتایا گیا کہ بیٹا ملاقات کو آیا ہے۔ اہم کام میں مشغول ہونے کی وجہ سے امیر المومنین اپنے بیٹے سے نہیں ملتے اور یہ فرماتے ہیں کہ ابھی ملاقات نہیں ہوسکتی۔ دروازے پر کھڑے بیٹے کو جب یہ پیغام دیا جاتا ہے، اس وقت نواسۂ رسول سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ بھی حضرت عمر فاروق سے ملنے آتے ہیں اور یہ پیغام سن کر واپس تشریف لے جاتے ہیں۔ امیر المومنین کو بتایا جاتا ہے کہ بیٹے کے لیے آپ کا فرمان ملاقات کے لیے تشریف لائے ہوئے نواسہ رسول نے بھی سن لیا اور کچھ فرمائے بغیر وہ واپس چلے گئے ہیں۔ امور خلافت کی انجام دہی فریضہ بھی ہے اور اس میں تن دہی اور انہماک ضروری بھی مگر عشق وادب کے تقاضے اس سے سوا ہیں۔ فاروق اعظم اسی لمحے پاپوش بھی نہیں پہنچتے اور تیزی سے چل کر نواسۂ رسول کو راستے میں جاملتے ہیں اور تواضع کرتے ہوئے پوچھتے ہیں کہ آپ واپس کیوں چلے آئے؟امام پاک فرماتے ہیں یقیناًآپ اہم کام میں مشغول تھے۔ بیٹے سے نہیں ملے۔ میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ پھر آجاؤں گا۔ فاروق اعظم فرماتے ہیں۔ عمر اپنے بیٹے کو منع کرسکتا ہے لیکن فرزند رسول کو منع نہیں کرسکتا اور پھر اپنے سر کے بال پکڑ کے کہتے ہیں کہ یہ کس نے اُگائے ہیں؟(یعنی یہ عزت کس کی وجہ سے ہے؟)آپ کو کسی اجازت کی ضرورت نہیں، آپ جب چاہیں تشریف لائیں۔
نسبت رسول کے ادب واحترام کا یہ واقعہ بھی ملاحظہ ہو، اردو دائرہ معارف اسلامیہ نے بھی اسے نقل کیا ہے۔ امیر المومنین نماز جمعہ کے لیے مسجد آرہے تھے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو الفضل سیدنا عباس بن عبدالمطلب کے گھر کے پاس سے گزرے تو بالائی منزل کے پرنالے سے گندا پانی گرا۔ امیر المومنین نے دفع مضرت عامہ کے پیش نظر اس پر نالے کو اکھاڑ دیا۔ حضرت عباس نے حضرت عمر فاروق کو بتایا کہ یہ پرنالہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دستِ مبارک سے یہاں نصب فرمایا تھا۔ فاروق اعظم یہ نہیں فرماتے کہ ارشادات نبوی کی اہمیت اس سے بہت زیادہ ہے۔ ان پر عمل پیرا ہونا زیادہ ضروری ہے۔ اس پر نالے کی اب یہاں گنجائش نہیں بلکہ وہ عمِّ رسول کو قسم دیتے ہیں کہ میرے کندھے سے بہتر سیڑھی اور آپ کے ہاتھوں سے بہتر ہاتھ نہیں ہوں گے۔ ابھی اسی وقت میرے کندھوں پر

چڑھ کر اسے پھر اسی جگہ نصب کردیں۔ 
کنزالعمال میں ہے کہ امیر المومنین حضرت خداش کے ہاں تشریف لے جایا کرتے کیوں کہ ان کے گھر میں ایک پیالہ تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھانا تناول فرمایا تھا۔ فاروق اعظم اس پیالے سے برکت حاصل کرتے۔
حضرت اسامہ بن زید کو میرے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت محبوب رکھتے تھے اور یہ بات فاروق اعظم کے لیے اتنی اہم تھی کہ وظیفے کی رقم کا تعین فرماتے ہوئے انہیں اپنے بیٹے عبداللہ سے زیادہ رقم دیتے۔
’’سراج اہل الجنتہ‘‘کا اعزاز بھی فاروق اعظم تک مولائے کائنات سیدنا علی المرتضیٰ کی بدولت پہنچا۔ مدائن کی فتح کے بعد مال غنیمت بہت آیا۔ حضرت عمر کو رشک اور شکر نے اشک بار کردیا کہ سامان لانے والے بوسیدہ لباس میں تھے مگر امانت دار تھے۔ امیر المومنین نے حسنین کریمین کو اپنے بیٹے سے زیادہ حصہ دیا۔ محدث اور مجاہد صحابی بیٹے نے اپنی خدمات کی طوالت کا ذکر کیا۔ تو فاروق اعظم نے پوچھا کہ کیا تیرے نانا بھی رسول اللہ(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )ہیں؟کیا تیری ماں بھی سیدۂ نساء اہل الجنتہ ہے؟
کیا تمہارے باپ بھی برادر وداماد رسول ہیں؟
کسی نے یہ بات مولائے کائنات کو سنائی تو حضرت سیدنا علی نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے میں نے سنا کہ عمر اہل جنت کے سراج(آفتاب،چراغ)ہیں۔ سننے والے نے یہ ارشاد حضرت عمر تک پہنچایا۔ امیر المومنین فاروق اعظم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے کاشانہ اقدس پہنچے اور سنا ہوا ارشاد بیان کرکے تصدیق چاہی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے تصدیق فرمائی تو عاشق صادق کی طلب دیکھیے ۔ کہا کہ مجھے لکھ دیجیے ۔ حضرت علی نے لکھا:’’یہ ضمانت وہ ہے جو علی ابن ابو طالب کی طرف سے عمر بن خطاب کے لیے ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اور انہیں جبرائیل امین نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ فرمایا کہ بے شک عمر بن الخطاب سراج اہل الجنتہ ہیں۔ فاروق اعظم نے اس تحریر کے لیے وصیت فرمائی کہ یہ نوشتہ میرے کفن میں میرے ساتھ قبر میں رکھا جائے۔
فاروق اعظم نسبت رسول کے احترام وادب میں حضرت سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو بارگاہ الٰہی میں وسیلہ بناکر بارش مانگتے ہیں۔ انہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے ادبی کی نیت سے قرآن پڑھنے والا منافق بھی گوارا نہیں اور نبی پاک کا فیصلہ نہ ماننے والا بھی برداشت نہیں، انہیں مسجدِ نبوی میں آواز کے ساتھ باتیں کرنے والے کلمہ گو بھی قبول نہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اسلام کی عزت اور غلبے کے لیے مانگا اور حضرت سیدنا فاروق اعظم نے اسلام کو اپنی عزت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کو اپنا ایمان بنائے رکھا۔ وہ مکہ مکرمہ عمرہ کرنے جارہے تھے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ اے بھائی ہمیں اپنی دعاؤں میں نہ بُھلانا۔ اس فرمان پر فاروقِ اعظم کو بہت ناز رہا کہ مقصود کائنات نے انہیں بھائی کہہ کر مخاطب کیا اور دعا کے لیے فرمایا ۔ ان کا فرمان ہے کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے مقابلہ میں دنیا ہیچ ہے۔محبت کی معراج بھی ہورہی ہے تعلیم امت بھی ہوری ہے۔
یوم عرفہ میں میدان عرفات حجاج کرام سے بھرا ہوا تھا پہاڑ سے حجاج کا اجتماع بہت خوب منظر پیش کررہا تھا۔ اس دن کے بارے میں احادیث ہیں کہ اللہ کریم جل شانہ بھی مباہات فرماتا ہے ۔ فاروق اعظم آب دیدہ تھے۔ دیکھنے والے نے اشک باری کی وجہ جاننی چاہی۔ فاروق اعظم نے فرمایا میں لحیم وشحیم جوان تھا۔ میرے والد اپنے چند اونٹوں کے ساتھ گھر واپس آتے اور مجھے اونٹ باندھنے کو کہتے۔ میں ایک اونٹ باندھ کر دوسرے کی طرف بڑھتا تو پہلا کھل جاتا۔ مجھے چند اونٹ سنبھالنے مشکل ہوتے۔ جو ان عمر بن خطاب سے وہ اونٹ قابو نہ ہوتے تھے۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں آیا ہوں تو لاکھوں کو سنبھال رہا ہوں۔ 
وہ غلامی رسول پر ناز کرتے تھے عالم اسلام ہمیشہ ان پر فخر کرتا رہے گا۔ 
اس خدا دوست حضرت پہ لاکھوں سلام

 


No comments:

Post a Comment