مُحافظِ ناموسِ رسالت، مجاھدجنگِ آزادی علامہ سیدکفایت اللہ کافی شہید رحمہ
یوم شہادت 22 رمضان المبارک
سید کفایت علی کافی رحمہ اللہ نےقلعہ کی چھت پر کھڑے ہو کر ایک نظر بھاگتے انگریز کو دیکھا اور پھر سجدے میں گر گئے مرادآباد خالی ہو چکا تھا۔
انگریز سامراج شکست کھا چکا تھا۔
سارا شہر سید زادے کے گرد جمع ہوچکا تھا ، نواب نے آگے بڑھ کر سید کفایت علی کافی علیہ الرحمہ کا شکریہ ادا کیا اور "صدرالشریعہ" کے عہدے سے نوازا۔
اندر کے غداروں کی وجہ سے 1857ء کی تحریک کچلی جا چکی تھی انگریز دوبارہ حاکم بن چکا تھا مراد آباد پر پھر سے انگریز قابض ہو چکا تھا سید کفایت علی کافی رحمہ اللہ گرفتاری سے قبل انگریز کے خلاف جہاد کا فتوی صادر کر چکے تھے جسے بدایوں، بریلی، اترکھنڈ میں ہر جگہ مسلمانوں کو پڑھ کر سنایا جاچکا تھا۔
جب سورج پہاڑ کی اوٹ میں روپوش ہو رہا تھا عین اسی وقت انگریز افسر سید کفایت علی کافی علیہ الرحمہ کے پاس آیا اور بولا
"آپ اب بوڑھے ہو گئے ہو آپ کا بڑھاپا دیکھ کر میں آپ پر ترس کھانے کو تیار ہوں موت سے بچنا چاہتے ہو تو اپنا جہاد کا فتوی واپس لے لو آپ کو رہا کر دیا جائے گا"
شہزادے نے حقارت سے انگریز کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا میں اپنے لہو سے تمہاری تباہی کی تحریر لکھ چکا ہوں اب برصغیر میں ایک آگ سلگ چکی ہے جو تمہارے محلوں کو جلا کر راکھ کردے گی۔
انگریز افسر غصے میں پلٹا اور چند دن بعد سید کفایت علی کافی علیہ الرحمہ کے سامنے ان کی موت کا پروانہ پڑھا جا رہا تھا سید کفایت علی کافی کے چہرے پر ایک مسکراہٹ کھیل رہی تھی
انگریز غصے میں آیا اور اپنے سپاہیوں کے ساتھ مل کر سید کفایت علی کافی علئہ الرحمہ پر لاٹھیوں کی برسات کر دی بوڑھے سید کفایت علی کافی زخموں سے چور ہو کر فرش پر گر پڑے۔
انگریز کو تسلی نہ ہوئی اس نے استریاں منگوانے کا حکم دیا بوڑھے سید زادے کے جسم پر استریاں پھیری جارہیں تھیں۔۔۔۔۔۔آپ کا سارا جسم داغا جا رہا تھا، جب مجاھدِجنگ آزادی کے چہرے پر کوئی حرفِ شکایت نہ آیا تو انگریز نے ان زخموں میں نمک مرچ بھر دیا انگریز افسر چلا کر بولا یہ صبح پھانسی سے قبل ہی فوت ہوجائیں گے اور چل دیا۔
محافظِ ناموسِ رسالت کا بوڑھا جسم درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا کہ عین اسی وقت امام الانبیاء خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم سیدزادے کے پاس تشریف لے آئے اور پوچھا
بیٹا کافی کیا پریشان ھو ؟
سیّدزادے نے نم آنکھوں سے نانا جان کی خدمت میں عرض کی
یا رسول اللہ صلی اللہ علیك وسلم پہلے پریشان تھا مگر اب نہیں ہوں
صبح ایک سپاہی انگریز افسر کے پاس خبر لے کر آیا کہ سید کفایت علی کافی
ابھی تک زندہ ہیں انگریز نے اسٹریچر لانے کا حکم دیا اور کہا کہ اس پر ڈال کر انہیں پھانسی گھاٹ کی طرف لے چلو.
جب سپاہی جیل کی طرف گیا تو ایک دلخراش چیخ ماری، سب جمع ہو چکے تھے سب کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئ۔
نمک مرچ سے بھرے ھوئے زخمی جسم کے باوجود مجاھد جنگ آزادی مقتل کی جانب روانہ ھونے سے قبل، کھڑے ھوکر سر پر عمامہ شریف پہن رہے تھے، سید کفایت علی کافی
فخریہ انداز سے سینہ تان کر مقتل کی طرف بڑھے ۔
آپ جانتے تھے کہ اللہ پاک کو یہ چال ناپسند ہے پر اس کے دشمنوں کے مقابلے میں پسند ہے انگریز افسر نے کپکپی لی اور کانپتے ہوئے کہا
آپ اب تک کھڑے کیسے ہیں
آپ علیہ الرژمہ مسکرا رہے تھے آپ کی مسکراہٹ آپ کی ہمت،استقلال،صبر اور غضب کی عکاسی کرتی تھی۔
اس عظیم مرد مجاھد نے ایک نظر پھانسی گھاٹ کی طرف دیکھا اور پھر فی البدیہ وہ نعتیہ کلام پڑھنا شروع کیا جس کی گونج آج بھی لہو کو گرماتی اور دنیا کی بے ثباتی کی یاد دلاتی ھے۔
ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻞ ﺑﺎﻗﯽ ﺭﮬﮯ ﮔﺎ نے ﭼﻤﻦ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﭘﺮ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧﷺ ﮐﺎ ﺩﯾﻦ ﺣﺴﻦ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﮬﻢ ﺻﻔﯿﺮﻭ ﺑﺎﻍ ﻣﯿﮟ ﮬﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺩﻡ ﮐﺎ ﭼﮩﭽﮩﺎ
ﺑﻠﺒﻠﯿﮟ ﺍﮌ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺳﻮﻧﺎ ﭼﻤﻦ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
ﺟﻮ ﭘﮍﮬﮯ ﮔﺎ ﺻﺎﺣﺐِ ﻟﻮﻻﮎ ﮐﮯ پر ھردم درود
ﺍٓﮒ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺗﻦ ﺑﺪﻥ ﺭﮦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ
مجاھداعظم نے لازوال قصیدے کے آخری شعر کے ساتھ زوال پزیر دنیا کو الوداع کہا
سب فنا ھوجائیں گے کافی و لیکن حشر تک
نام حضرت کا زبانوں پر سخن رہ جائے گا
قافلہ حریت کا پاسباں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر چکاتھا
سید کفایت علی کافی رحمہ اللہ کا مقدس لہو ایک نیا باب لکھ چکا تھا جس کا اختتام 1947 میں قیام پاکستان کے ساتھ ہوا
سورج نیلے افق پر اپنی شعائیں بکھیر رہا تھا اور عالم اسلام کا ایک عظیم سورج عین اسی وقت غروب ہو رہا تھا۔
گلشن تیری یادوں کا مہکتا ھی رھے
No comments:
Post a Comment