Tuesday, January 15, 2019

AMERICA TRIP-HAZRAT ALLAAMAH KAUKAB NOORANI OKARVI DO YOU KNOW HOW AMERICA GOT ITS NAME? READ ON...


DO YOU KNOW HOW AMERICA GOT ITS NAME? READ ON... 

Okarvi,


بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نگاہ عنایت یہاں بھی وہاں بھی
( سفر نامہ امریکا)
کوکب نورانی اوکاڑوی

پنجاب یونی ورسٹی ( دانش گاہ پنجاب ) کے مرتب کردہ ’’ اردو دائرہ معارف اسلامیہ ‘‘ (طبع اول ، 1982ء ) کے صفحہ 75، جلد 2/14 میں حضرت سیدنا علی ( اوسط ، زین العابدین ) بن سیدنا امام حسین رضی اللّٰہ عنہما کے تحت یہ درج ہے : ’’ ایک یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان کی نسل میں ایک صاحب امیرکا بن علی بن حمزہ بن موسی بن جعفر ہوے ہیں جن کا زمانہ چوتھی صدی ہجری کا ہے ۔ خیال ہے کہ وہ سیاحت و سفر کرتے کرتے اس سرزمین پر لنگر انداز ہوے جسے امریکہ کہتے ہیں اور انہی کے نام ( امیرکا) پر امریکہ America پڑا ۔ ‘‘
ماہ نومبر کی چوتھی جمعرات کو ریاست ہاے متحدہ شمالی امریکا میں تھینکس گوِنگ Thanks giving کا تیوہار منایا جاتا ہے۔ وکی پیڈیا ( اِن سائک لو پیڈیا ) میں اس کی ابتدا بھی درج ہے ، تاہم گمان ہے کہ انہی لنگر انداز ہونے والوں نے لمبی مسافت کے بعد ساحل پانے پر بطور شکرانہ قربانی کی ہوگی، تھینکس گوِنگ شاید انہی کی یادگار ہے ۔ امریکا میں اس دن ٹرکی ( مرغ سے کچھ بڑے پرندے ) کی قربانی کا رواج ہے ۔ ( جمعرات ، حلال جان وَر اور قربانی ، یہ تینوں اشارے قابل توجہ ہیں ) ۔
اِن سائک لو پیڈیا کے مطابق 1507ء میں امریکا نام کا پہلا استعمال ہوا ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک جرمن نقشہ ساز نے جنوبی اور شمالی برور اعظم کو ظاہر کرنے کے لیے امریکا کا لفظ چُنا ۔ ان خطّوں کو کو لم بَس کے حوالے سے کو لم بِیا بھی کہا جاتا رہا ہے ۔ 12 اکتوبر یا19 نومبر 1493ء میں کرس ٹو فر کولم بَس اس سرزمین پر مشرقی ساحل کے قریب بہاماز پر اترا تھا ۔ مشرقی ساحل کے قریب بہاماز ، یہ مقام جنوب مشرقی ساحل پر فلوری ڈا کے قریب واقع ہے ۔ کہتے ہیں کہ وہ پہلا بیرونی شخص تھا جو یہاں آیا ۔ کہا گیا ہے کہ اس سے قبل اس سرزمین پر مختلف مقامی قبائل اور الاس کا کے قبائل آباد ہوتے رہے ۔


 1492ء سے 1624ء تک مختلف مہم جو یہاں آے اور ہر ایک نے نو آبادیاں قائم کیں ۔ 1760ء سے 1770ء کے دوران امریکی نو آبادیوں اور برطانوی راج کے درمیان کشیدگی ، کھلی لڑائی میں بدل گئی ۔ 7 جون 1776ء میں بروراعظم کی منعقدہ کانفرنس میں رچرڈ لی ہن ری نے قرار داد پیش کی کہ ان متحدہ نو آبادیات کو آزاد اور خود مختار رہنے کا حق حاصل ہے ۔ مارچ 1782ء میں برطان وِی کابینہ نے امریکا کی خود مختاری کو تسلیم کرلیا۔ 4 جولائی 1776ء میں برطانیا سے آزادی کے بعد سرکاری طور پر اس خطے کو ریاست ہاے متحدہ امریکا پکارا گیا ۔ کہا گیا ہے کہ پانچ صدیاں قبل ساری مشرقی دنیا اس خطے سے بے خبر تھی ۔ 1789ء میں جارج واشنگ ٹن امریکا کا صدر منتخب ہوا ۔ جب سے اب تک اس ملک میں صدارتی نظام ہی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جارج واشنگ ٹن نے عہدہ صدارت چھوڑتے ہوے اپنی قوم کو خبردارکیا تھا کہ کسی غیر ملکی حکومت سے کبھی کوئی مستقل اتحاد نہ قائم کرنا ۔ جارج واشنگ ٹن کے لیے یہ قول مشہور ہے کہ ’’ جنگ میں اول اور امن میں بھی اول اور اپنے ہم وطنوں کے دل میں بھی اول ۔ ‘‘
مشرق میں پَے سی فک Pacific ocean ( بحر الکاہل ) اور مغرب میں Atlantic ایٹ لان ٹک اوشِین ( بحر اوقیانوس ) ہیں ان کے درمیان واقع اس ملک امریکا کے جنوب میں میک سی کو Mexico اور شمال میں کے نے ڈا Canada کے ملک ہیں ۔37,17,813 مربع میل رقبے والا یہ ملک دنیا کاتیسرا یا چوتھا بڑا ملک شمار ہوتا ہے جس کی آبادی تیس کروڑسے زائد ہے (30,94,96,800) ۔ زیادہ تر آبادی شمال مشرق کے ساحلوں ہی پر ہے ۔ یورپ سے امریکا جانے والی پروازیں اَٹ لان ٹک اوشین سے گزر کر ہی امریکا پہنچتی ہیں اور یہ مسافت تقریباً سات گھنٹوں میں طے ہوتی ہے ۔
اس ملک امریکا کے لیے میں نے بہت طویل اور تھکا دینے والے سفر بھی کیے ہیں ۔ پاکستان سے امریکا تک ایک طیارے کی مسلسل پرواز کا دورانیہ چودہ گھنٹے ہے ۔ لیکن میں نے چالیس گھنٹے میں بھی اس سفر کو مکمل کیا ہے ۔ ایک مرتبہ کراچی سے دوبئی دوگھنٹے پرواز کے بعد سات گھنٹے دبئی ایرپورٹ پر اگلی پرواز کے انتظار میں گزارے ، دبئی سے لندن تک پرواز کا دورانیہ سات گھنٹے تھا اور وہاں بھی امریکا کی پرواز کے لیے سات گھنٹے انتظار کیا ۔ لندن سے ڈیٹ رائٹ تک سات گھنٹے کی پرواز رہی اور وہاں تین گھنٹے کے وقفے کے بعد لاس اینجلس تک ساڑھے پانچ گھنٹے کی پرواز تھی ۔ یوں لگ بھگ چالیس گھنٹے میںیہ سفر مکمل ہوا ۔ ایک کٹھن سفر نشتر پارک میں میلاد کے دن حادثے میں زخمی ہونے کے بعد کیا تھا جو نہیں بھولتا

No comments:

Post a Comment