Friday, April 17, 2020

لاک ڈاؤن میں جمعہ والے فتویٰ کے دلائل



لاک ڈاؤن میں جمعہ والے فتویٰ کے دلائل
مضمرات اور درخشاں جلوے


از: فقیہ اعظم مفتی محمد نظام الدین رضوی دام ظلہ

صدر المدرسین و صدر شعبہ افتا، جامعہ اشرفیہ، مبارکپور، اعظم گڑھ، یوپی، انڈیا۔
باسمہٖ سبحانہ و تعالیٰ

ہم نے اپنے موقف پر نظر ثانی کرلی، وہ الحمد للہ حق ہے، صرف تشریح و تفہیم
کی حاجت ہے۔
فقہا کی عبارتوں کے اشارات و مضمرات میں جب کبھی تنہائیوں میں یک سوئی کے ساتھ غور فرمائیے تو ان کے ایسے درخشاں جلوے سامنے آتے ہیں کہ طبیعت جھوم اٹھتی ہے اور دل فرحت و کشادگی کے ساتھ یہ اعتراف کرتا ہے کہ واقعی یہ ’’دُرّ مختار‘‘ہیں، یا ’’مجمع الاَنہُر‘‘ یا ’’فتح القدیر‘‘ یا ’’عطایا نبویہ‘‘ وغیرہ، وغیرہ۔
ہم یہاں نہ سب کا احاطہ کر سکتے ہیں، نہ وقت میں سب کے شرح و بیان کی گنجائش ہے، اس لیے ہم ان کی عبارتوں کے صرف ایک پہلو کے جلوے دِکھاتے ہیں۔
کورونا وائرس (کووِڈ COVID-19)کے خوف زدہ ماحول میں سماجی فاصلہ رکھنے اور بھیڑ بھاڑ سے بچنے کے لیے ۲۵؍ مارچ سے لاک ڈاؤن اور دفعہ ۱۴۴ سختی کے ساتھ نافذ ہے جس کا اطلاق بلا امتیاز تمام عبادت گاہوں پر بھی ہوتا ہے اور اس کی خلاف ورزی پر پولیس کے ذریعہ زد و کوب ، ذلت و رسوائی اور گرفتاری و قانونی کار روائی کے خوفناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جب کہ لوگوں کا شوقِ جمعہ انھیں مساجد کی طرف کھینچے لیے جاتا ہے اس لیے یہ سوال پورے مسلم سماج میں موضوع گفتگو ہو گیا کہ اب جمعہ کیسے ادا ہوگا، دروازہ بند کرکے جمعہ کی نماز ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟
اس بارے میں دو طرح کے فتوے سامنے آئے:
پہلے فتوے میں یہ بتایا گیا ہے کہ جمعہ کے وقت دروازہ کچھ کھلا رہ سکے تو بہتر ہے، ورنہ دفعِ ضرر کے لیے بند بھی کر سکتے ہیں اور جمعہ صحیح ہوگا۔
دوسرے فتوے میں کہا گیا ہے کہ دروازہ بند ہونے کی صورت میں جمعہ صحیح نہیں ہوگا کہ صحت جمعہ کے لیے اذن عام شرط ہے اور دروازہ بند کرنے سے یہ شرط نہیں پائی جاتی۔
جواز والا فتویٰ راقم الحروف کا ہے جس کے دلائل پر کچھ احباب کو کلام ہے اس لیے ہم ان دلائل کی تشریح و تفہیم کرتے ہیں ۔
پہلی دلیل : مسجد سے ممانعت کی بنیاد نماز یا جماعتِ نماز ہو تو یہ اذنِ عام کے منافی ہوگی۔ اور اگر اس کی بنیاد فتنے یا دشمن سے ضرر کا اندیشہ ہو تو وہ اذن عام کے منافی نہ ہوگی، لہٰذا جمعہ صحیح ہوگا اور موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن اور دفعہ ۱۴۴ کے نفاذ کی بنیاد مُہلک وائرس سے اندیشۂ ضرر ہے، نماز و جماعتِ نماز نہیں ہے لہٰذا بابِ مسجد بند ہونے کی صورت میں بھی نمازِ جمعہ صحیح و درست ہوگی۔
در مختار میں ہے:
فَلَا يَضُرُّ غَلْقُ بَابِ الْقَلْعَةِ لِعَدُوٍّ أَوْ لِعَادَةٍ قَدِيمَةٍ لِأَنَّ الْإِذْنَ الْعَامَّ مُقَرَّرٌ لِأَهْلِهِ وَغَلْقُهُ لِمَنْعِ الْعَدُوِّ لَا الْمُصَلِّي، نَعَمْ لَوْ لَمْ يُغْلَقْ لَكَانَ أَحْسَنَ كَمَا فِي مَجْمَعِ الْأَنْهُرِ مَعْزِيًّا لِشَرْحِ عُيُونِ الْمَذَاهِبِ

. اهـ (الدر المختار على هامش رد المحتار ج:1، ص: 601، باب الجمعة)
ترجمہ : کسی دشمن (کے اندیشہ) یا قدیم تعامل کی وجہ سے قلعہ کا دروازہ بند کرنا اذن عام میں مضر نہیں ہے اس لیے کہ اذن عام اہل شہر کے لیے برقرار ہے اور دروازہ بند کرنا دشمن کو روکنے کے لیے ہے، نہ کہ نمازی کو ر وکنے کے لیے، ہاں ! اگر دروازہ بند نہ کیا جائے تو زیادہ اچھا ہے جیسا کہ مجمع الانہُر میں شرح عیون المذاہب سے ہے۔
اس پر کلام یہ کیا گیا ہے کہ دشمن کے حملے کا یقین یا ظن غالب ہو تو دروازہ بند کرنا جائز ہوگا اور یہاں تو نمازیوں میں کورونا وائرس کا وجود محض موہوم ہے، لہٰذا اس کی بنا پر دروازہ بند کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔
تشریح و تفہیم : (الف) اس بے مایہ نے یہ سمجھا کہ یہاں ’’دشمن کے اندیشہ‘‘ سے مراد دشمن کے آ جانے کا شک ناشی عَن دلیل ہے، ظن غالب نہیں، کیوں کہ شرح عیون المذاہب، مجمع الانہر ، اور در مختار تینوں میں باتفاق راے یہ حکم مذکور ہے:
’’لو لم یُغلق لکان أحسن. دروازہ بند نہ کیا جائے تو احسن (زیادہ اچھا) ہے ‘‘ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دروازہ بند کرنا حَسَن (اچھا) ہے۔ اَحسن ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دروازہ کھلا رکھنا شبہۂ عدم اذن سے بعید تر ہے، دشمن کے حملے کا یقین یا ظن غالب ہوتا تو دروازہ بند کرنا صرف اَحسَن نہ ہوتا، بلکہ واجب ہوتا ،طحطاوی علی الدّر ج: ۱، ص: ۳۴۴، کے ایک جزئیے سے بھی اس کی تایید ہوتی ہے۔ عبارت یہ ہے:
أمّا إذا کان لمنع عدوّ ، و یُخشى دخوله و هم في الصلاة فالظّاهِرُ وجوب الغلق.

ترجمہ : جب دروازہ بند کرنے سے مقصود دشمن کو روکنا ہو کہ عین حالتِ نماز میں دشمن کے آنے کا خطرہ ہے تو ظاہر یہ ہے کہ دروازہ بند کرنا واجب ہے۔
کلمۂ ’’إذا‘‘ ایسی شرط کے لیے آتا ہے جس کا وجود محقق ہو ، مشکوک نہ ہو چناں چہ مسلم الثبوت و فواتح الرحموت میں ہے:

’’إذا ظرفُ زمان و یجیء للشّرط محقّقا ، فلا يدخل على ما هو على خطر الوجود، إلّا 

لنكتة. اه
ـ (مسلم الثبوت و فواتح الرحموت، ج:1، ص: 235)
یہاں إذا کی وجہ سے ’’خشیت‘ نے گمانِ غالب کا فائدہ دیا۔ تو اس عبارت کا حاصل یہی ہوا کہ نماز کی حالت میں دشمن کے آ جانے کا ظن غالب ہو تو دروازہ بند کر دینا واجب ہے۔ لہٰذا عیاں ہو گیا کہ در مختار، وغیرہ میں جہاں دروازہ بند کرنا اَحسن بتایا گیا ہے وہاں دشمن کے حملے کا یقین یا ظنّ غالب نہیں ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ شریعت میں بعض کلامی مسائل کے سوا دیگر ابواب میں صرف عقلی شبہہ معتبر نہیں کہ وہ وہم محض ہے، ہاں شبہہ کے ساتھ کوئی قرینہ پایا جائے مثلاً بادشاہ یا حاکم سے عداوت رکھنے والے اس شہر میں پائے جاتے ہیں تو یہ شبہہ ناشی عن دلیل ہوگا اور بابِ ضرر میں اس کا اعتبار ہے جیسا کہ بہت سے جزئیات بلکہ اصول بھی اس کے شاہد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بابِ مسجد بند کرنا جائز ہوا، شبہۂ محض یا وہم محض ہوتا جو بس ایک ذہنی پیداوار ہے تو اجازت نہ ہوتی۔
(ب) اب ذرا در مختار کی عبارت ’’و غلقُہ لمنع العدوّ لا المصلّي‘‘ میں ایک اور حیثیت سے غور فرمائیے، اصول فقہ کا ضابطہ ہے کہ جب حکم مشتق سے متعلق ہوتا ہے تو ماخذ اشتقاق حکم کی علت ہوتا ہے، یہ مسلّمات سے ہے جس کی صراحت نور الانوار ، اور مسلّم الثبوت و فواتح الرحموت وغیرہ میں ہے۔ یہاں مصلّی کا لفظ مشتق ہے اور ماخذ اشتقاق صلاۃ۔ اس سے میں نے یہی سمجھا کہ ممانعت کی بنیاد نماز ہو تو وہ اذن عام پر اثر انداز ہوگی۔ جمعہ کے لیے جماعت شرط ہے جس کے لیے امام کے سوا کم از کم تین نفر ہونا ضروری ہے اس لیے یہاں جماعت سے ممانعت کو بھی نماز سے ممانعت کے حکم میں شامل کیا پھر بڑی خوشی ہوئی جب جد الممتار کی یہ عبارت باصرہ نواز ہوئی:

إنَّ المُضِرَّ إنّما هُو المنعُ عنِ الصَّلاةِ ، و معناهُ: أن تكونَ عِلّةُ المَنعِ هي الصلاةُ نفسُها أو لازِمُها الغيرُ المُنفكُّ عنها كالمنعِ كراهةَ الاِزدِحامِ. و المنعُ للفتنةِ ليسَ كذلِك، فكان كمنع المُوذي مِن دخول المساجِدِ، فإنّ حقيقةَ المنع عنِ الإيذاءِ ، لا عن ذكرِ الله تعالىٰ في المساجدِ. فافهم

. (جَدّ الممتار على ردّ المحتار ، ج: 3، ص:596، 597، مکتبة المدينه)

ترجمہ : ’’اذن عام‘‘ میں مُضر صرف نماز سے روکنا ہے۔ اور مقصود یہ ہے کہ ممانعت کی علت خود نماز ہو یا لازمِ نماز جو اس سے جدا نہ ہو جیسے ازدحام سے ناگواری کی وجہ سے ممانعت۔ اور اندیشۂ فتنہ کی وجہ سے روکنا ایسا نہیں ہے تو یہ مسجد سے موذی کی ممانعت کی طرح ہے کہ موذی کو روکنا درحقیقت ایذا سے روکنا ہے ، یہ مساجد میں ذکر الٰہی سے روکنا نہیں ہے، اسے سمجھ لیجیے۔
فقیہ فقید المثال امام احمد رضا علیہ الرحمۃ و الرضوان نے بات بہت واضح فرما دی کہ :
یہ دیکھا جائے کہ علتِ منع کیا ہے نماز و لازم نماز - یا - اندیشۂ فتنہ و ایذا۔
علت منع اگر نماز یا لازم نماز ہو تو اذن عام میں مضر ہوگا، اور اگر یہ نہ ہو ، بلکہ اندیشۂ فتنہ و ایذا، وغیرہ ہو ،تو اذن عام میں مضر نہ ہوگا۔
اور کھلی ہوئی بات ہے کہ حکومت ایک محدود تعداد میں جماعتِ نماز و جمعہ کی اجازت دے رہی ہے اور اس سے زائد کو اس وجہ سے روک رہی ہے کہ ان سے وائرس پھیلنے کے خطرات زیادہ ہیں اور یہ وائرس زیادہ بھیڑ بھاڑ اور قرب و اختلاط سے ہی بڑھ رہے ہیں تو یہاں ممانعت کی علت نماز و لازم نماز نہیں ہے ، بلکہ ایک بھیانک اور مہلک وائرس ہے۔
مطلق ’’ازدحام‘‘ سے کراہت کی وجہ سے ممانعت، لازم نماز سے ممانعت ہے مگر جو ازدحام لازم نماز ہے وہ باب جمعہ میں ایک امام اور تین مردوں کی جماعت ہے، اتنے افراد شرط جمعہ پائے جانے کے لیے شرط ہیں اور ہمارے مسئلۂ دائرہ میں مطلق ازدحام یا جماعت سے نہ کراہت ہے ، نہ ممانعت ، بلکہ اس کی تو اجازت ہے، ہاں کثرتِ ازدحام سے نامعلوم افراد میں وائرس پھیلنے کے اندیشے سے ممانعت ہے کہ یہ کنٹرول سے باہر ہوگا۔
(ج) در مختار کے جزئیہ کو ہر گوشہ سے سمجھنا چاہیے تا ہم یہ بات ضرور ملحوظ خاطر رہے کہ مسجد سے روکنے یا باب مسجد کے بند کرنے کے جواز کی علت بہر حال ’’منع العَدو‘‘ ہے کیوں کہ مسجد کے عامۂ مصلیان مسجد میں حاضر ہوں، مگر خوفِ عَدو نہ ہو تو باب مسجد بند کرنے سے اذن عام ختم ہو جائے گا۔ محیط 

برہانی اور ہندیہ میں اس کی صراحت ہے۔ محیط کی عبارت یہ ہے :

فإن فتح بابَ الدّار، و أذن للناس إذنا عامّا جازت صلاتُه شهدها العامّة أو لم يشهدها و إن لم يفتح باب الدّار و أغلق الأبواب كلها ... لم تجزئهم الجمعة.

(ج: 2، ص: 285)
خلاصہ بقدر حاجت یہ ہے کہ سلطان نے اپنے محل میں جمعہ قائم کیا اور عامۂ مصلیان حاضر ہیں پھر بھی جمعہ صحیح نہیں ہے ، اس سے ظاہر یہی ہے کہ یہاں باب مسجد اندیشۂ دشمن کی وجہ سے بند نہیں ہوا ہے اس لیے اذن عام میں مضر ہو گیاتو اصل علت خوفِ عدو ہی ہے۔
(د) یہاں یہ امر بھی مخفی نہ رہے کہ ’’جو چیز ضرر پہنچائے‘‘ وہ عدو کے حکم میں ہے لہٰذا عدو والے جزئیے سے وائرس والے مسئلے میں استدلال بجا ہے۔
(ہ) جمعہ مسجد میں ہو یا محل ، یا قلعہ میں ہر جگہ جمعہ صحیح ہونے کے لیے اذن عام ضروری ہے، اس بارے میں مسجد، محل، قلعہ سب کا حکم ایک ہے
لہٰذا جس صورت میں محل یا قلعہ میں دروازہ بند کرنے کی اجازت ہوگی اس صورت میں مسجد کا دروازہ بھی بند کرنے کی اجازت ہوگی اس لیے دروازہ بند کرنے کے جواز اور عدم جواز میں مسجد اور قلعہ کے درمیان فرق نہ کیا جائے۔
دوسری دلیل : عورتوں کو اندیشۂ فتنہ کی وجہ سے مسجد آنے کی ممانعت ہے پھر بھی اذن عام برقرار اور جمعہ صحیح ہوتا ہے ویسے ہی وائرس سے اندیشۂ فتنہ و ضرر کے باعث عامۂ ناس کو ازدحام سے ممانعت ہے اور اس سے اذن عام پر کوئی اثر نہ پڑے گا  اور جمعہ صحیح ہوگا۔
لقد نهىٰ عمرُ ـــ رضي الله تعالى عنه ـــ النّساء عن الخروج، إلى المساجد. (رضوية عن العناية).
ترجمہ : حضرت عمر - رضی اللہ تعالیٰ عنہ - نے عورتوں کو مسجد جانے سے منع فرما دیا۔ اس کی علت صاحب ہدایہ -رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ - نے یہ بیان فرمائی:
لِمَا فيه مِن خوفِ الفتنة
.(ج: ۱، ص: ۱۰۵، باب الإمامۃ، مجلس البرکات)
کیوں کہ مسجد کی حاضری میں فتنے کا اندیشہ ہے۔
تشریح و تفہیم:
فتنہ عورتوں سے بھی ہو سکتا ہے اور عورتوں پر بھی ہو سکتا ہے ـــــــــ یہ عبارت دونوں کو عام ہے، اور خیر القرون میں دونوں طرح کے فتنے نہ واقع تھے، نہ مظنون بظنّ غالب، بلکہ مشکوک و مشتبہ تھے، ہماری گفتگو اسی قرنِ مقدس تک محدود ہے، خدارا آج کے زمانے پر اُس زمانۂ خیر کو قیاس نہ کیا جائے۔
(الف) زمانۂ خیر میں عورتوں کی طرف سے فتنہ بس شبہہ کی حد تک تھا:   حضرت عمر فاروق اعظم - رضی اللہ تعالیٰ عنہ - نے جن خواتین کو مسجد جانے سے روکا تھا وہ خیر القرون کی خواتین تھیں جو غلبۂ خیر و صلاح کے لیے اپنی مثال آپ تھیں، وہ صحابیات تھیں یا تابعیات، جو صالحات و عفیفات تھیں، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’اب اگر ایک صالحہ ہے تو جب ہزار تھیں، جب اگر ایک فاسقہ تھی اب ہزارہیں، اب اگر ایک حصۂ فیض ہے جب ہزار حصے تھا، رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں
:  لا يأتي عام إلّا و الّذي بعده شرّ منه.‘‘

 (فتاوى رضویہ ج: ۴، ص: ۱۷۰، رسالہ : جمل النور، سنی دار الاشاعت)
’’شرع مطہر کا قاعدہ ہے کہ جلبِ مصلحت پر سلبِ مفسدہ کو مقدم رکھتی ہے درءُ المفاسد أہمُّ مِن جلبِ المصالح۔ جب کہ (یعنی جس زمانے میں) مفسدہ اس سے بہت کم تھا اُس مصلحت عظیمہ( جماعت پنجگانہ و جمعہ) سے ائمۂ دین - امام اعظم و صاحبین و مَن بعدَھُم- نے روک دیا اور عورتوں کی قسمیں نہ بنائیں کہ صالحات جائیں، فاسقات نہ آئیں بلکہ ایک حکم عام دیا۔‘‘ (ایضاً)
’’ کرمانی نے قول امام تیمی (نقل کیا کہ) اس حدیث میں فسادِ بعض زنان کے سبب سب عورتوں کی ممانعت پر دلیل  ہے۔‘‘ (ایضاً: ص ۱۷۲)
عبارتِ غنیہ کہ آپ نے نقل کی ... دیکھیے اسی منع مساجد سے سند لی جس کا حکم عام ہے
تو لِـمَا في خروجہِنَّ في الفساد سے’’فسادِ بعض ‘‘ ہی مراد ، اور اسی سے مَنعِ کُل مستفاد، نہ کہ صرف فساد والیوں پر قصر ارشاد‘‘ [یعنی حکم ممانعت صرف غلط عورتوں کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ تمام صالحات کو بھی عام ہے اور فساد سے مراد بعض عورتوں کا بگاڑ ہے۔
 ن]  (فتاویٰ رضویہ ج: ۴، ص: ۱۷۳، رسالہ : جمل النور ، سنی دارالاشاعت، مبارک پور )
ہمارے استدلال کا مرکز یہی صالحات و عفیفات ہیں۔
(ب ) عورتوں پر مردوں کی طرف سے فتنہ بھی شبہہ کی حد تک تھا: عامۂ صحابۂ کرام و تابعین عظام - رضی اللہ تعالیٰ عنہم - صالحین سے تھے، فُسّاق نہ تھے، بالخصوص صحابۂ کرام کہ سب عادل تھے  اور زبانِ نبوت سے انھیں ’’خیار امت ‘‘ کا لقب ملا ہے، تو صحابہ و تابعین پر فسق و فجور کا ظن غالب نہیں ہو سکتا، جب کہ عورتوں پر فتنہ فُسّاق ہی سے ہو سکتا ہے اور کتبِ فقہ میں اسی کی صراحت بھی ہے۔
یہ ساری گفتگو خیر القرون کی خواتین اور مردوں کے بارے میں ہے جب عورتوں میں عفت و پارسائی اور مردوں میں تقویٰ و پرہیزگاری عام تھی، مگر بعض کے بگاڑ کے سبب سب کو جمعہ و جماعت کی حاضری سے روک دیا گیا۔
کیا معاذ اللہ خیر القرون کی ان مقدس خواتین اور پاکباز مردوں میں فساد و بگاڑ مظنون بظن غالب تھا، ہزار بار خدا کی پناہ کیا ان کے متعلق کوئی مسلمان ایسا سوچ سکتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ بعض کے بگاڑ کی وجہ سے سب کو مسجد کی حاضری اور جماعتِ پنج گانہ اور جمعہ جیسے شعار اسلام سے روک دیا گیا۔
یہ بے مایہ - جو مکتبِ فقہ کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہے- یہی سمجھتا ہے کہ جس باب میں اصل منع ہوتا ہے وہاں شُبہہ کی بنا پر بھی حکم جاری ہوتا ہے، ہاں شبہہ محض عقلی نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ اس کی تایید میں کوئی دلیل ہونی چاہیے اور ’’فساد بعض‘‘ اس شبہہ کی یک گونہ تایید کرتا ہے، اس طرح یہ ’’شبہہ ناشی عن دلیل‘‘ تھا اور کتب فقہ میں اس کے بہت سے شواہد موجود ہیں جو فقہا سے مخفی نہیں۔
جدید کورونا وائرس بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں، بیماری کا سبب ہے: یہ بذاتِ خود کوئی بیماری نہیں، بلکہ فی الواقع یہ بیماری کا سبب اور ایک جاندار مخلوق ہے جس سے کوئی چار ماہ پہلے دنیا متعارف ہوئی، اس کا حجم اتنا معمولی ہوتا ہے کہ ایک  خاص قسم کے خو ردبی

نفی نہیں ہوتی، مشہور مثال ہے: لا رجلَ في الدّار گھر میں کوئی مرد نہیں، یہاں لا نفی  جنس کے لیے ہے تو اس سے جنس مرد کے ہر فرد  سے گھر میں ہونے کی نفی ہو گئی ، مگر اس سے عورت کی نفی نہیں ہوئی کیوں کہ وہ مرد کی جنس سے نہیں ہے۔  اسی طرح سمجھیے کہ  لا عَدویٰ میں جنس مرض کی نفی کی گئی ہے اور وائرس یا جراثیم جنس مرض سے نہیں، جنس حیوان سے ہیں ، انکار حدیث کے فتنے سے آپ بے خبر نہیں ہوں گے اس تشریح پر کلام کرتے وقت اسے ضرور پیش نظر رکھیے گا۔
تیسری دلیل : موذی کو اندیشۂ ایذا کی وجہ سے مسجد آنے کی ممانعت ہے تاہم اس سے اذن عام اور صحت جمعہ پر کوئی اثر نہیں پڑتا، یوں ہی کورونا وائرس سے اندیشۂ ایذا کی بنا پر لوگوں کی بھیڑ کو مسجد میں آنے کی ممانعت ہے اور اس سے اذن عام اور صحتِ جمعہ پر کوئی اثر نہ پڑے گا۔
و يُمنع منهُ كلّ موذٍ و لو بلسانه. (الدر المختار ، أحكام المسجد)
ترجمہ : مسجد سے ہر موذی کو روکا جائے اگر چہ وہ زبان سے ایذا دے۔
جو  لوگ نماز سے پہلے کچا لہسن ، کچی پیاز یا کچا گندنا کھا لیتے جس کے باعث منہ سے بدبو آتی ، انھیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے مسجد جانے سے روک دیا کہ ان کے منہ کی بدبو سے فرشتوں اور نمازیوں کو ایذا پہنچتی ہے۔ تو حدیث در اصل کچا لہسن ، کچی پیاز ، کچا گندنا (مولی کی طرح کوئی سبزی) کھانے والے کے بارے میں وارد ہوئی ہے اس کو بنیاد بناکر ہمارے علما نے ہر موذی کو روک دیا ، یہاں تک کہ جو زبان سے ایذا دے مثلاً مسجد میں گالی گلوج  بکے اسے بھی منع فرما دیا۔
بعد میں ہمارے علما نے یہی حکم ہر بدعقیدہ کے بارے میں بھی جاری فرمایا کیوں کہ وہ مسجد میں آکر اپنی بدعقیدگی کی تبلیغ کر سکتا ہے جو لہسن کی بدبو کی ایذا سے بڑھ کر ہے ۔
تشریح و تفہیم: اب غور فرمائیے،
جو بدعقیدہ اپنے مذہب کی تبلیغ سے جُڑے ہیں وہ تو موقع پاکر اپنا کام شروع کر دیں گے۔
اور کچھ بد عقیدہ جو تبلیغی مزاج رکھتے ہیں ان کے متعلق بھی یہ گمان ہو سکتا ہے۔
مگر ان کی اکثریت کا حال ان دونوں سے الگ تھلک ہے، وہ نماز پڑھتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، پھر مسجد کے گیٹ پر یہ اعلان بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں کوئی تبلیغ نہ کرے، اس کے بعد اول کے سوا کوئی تبلیغ کی جرأت نہ کرے گا، مگر کیا اس طرح کا اعلان لگانے کے بعد وہ ممانعت ختم ہو جائے گی، ہرگز نہیں، آخر کیوں ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ا ن کے عام افراد کے بارے میں ہم نہیں جانتے کہ یہ لوگ ، یا ان میں سے کوئی تبلیغی ہے یا نہیں ، ہو سکتا ہے ان میں کوئی تبلیغی ہو، پھر ہو سکتا ہے کہ اسے کبھی تبلیغ کا موقع مل جائے تو اپنا کام شروع کر دے، یہاں بدعقیدگی کی تبلیغ کا شبہہ ہے جو ناشی عن دلیل ہے اس لیے علما نے مطلقاً ممانعت فرما دی۔
کچھ ایسا ہی حال ’’ جدید کورونا وائرس‘‘ کا بھی ہے جو اپنے مضر اثرات اور ہلاکت خیزی کے لیے آج پوری دنیا میں مشہور ہے دنیا کی حکومتوں نے سماجی فاصلہ قائم رکھنے کے لیے لاک ڈاؤن کا لازمی فرمان جاری کرکے سب کو گھروں کے اندر محصور کر دیا ہے، روزنامہ انقلاب ص ۹ شمارہ ۲۱؍ اپریل کے مطابق آج دنیا کی چار ارب آبادی اپنے گھروں میں محدود ہے۔ ہمارے ملک میں اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بری طرح پیٹا جا رہا ہے، گرفتاری بھی عمل میں آرہی ہے، ڈرون کیمرے سے اس پر نظر بھی رکھی جا رہی ہے، دفعہ ۱۴۴ پورے ملک میں نافذ کرکے کسی بھی جگہ ۴، ۵ سے زیادہ آدمیوں کو اکٹھا ہونے سے سختی کے ساتھ روک دیا گیا ہے، یہ سب کچھ یہ مان کر کیا جا رہا ہے کہ کورونا وائرس ایک دوسرے کے ساتھ رہنے ، ملنے جلنے، خلط ملط ہونے سے منتقل ہوتا اور پھیلتا ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ وائرس چین کے شہر ووہان میں پیدا ہوا اور پروازوں کے ذریعہ دوسرے ممالک کے لوگوں کے وہاں جانے ، آنے سے واسطہ در واسطہ دنیا کے بڑے حصے میں پھیل گیا ۔ آج  ۲۵  لاکھ سے زیادہ لوگ اس کے مریض ہو چکے ہیں اور ایک لاکھ اَسّی ہزار ہلاک ہو چکے ، یہ سب کچھ باہم انسانوں کی بھیڑ بھاڑ اور آمد و رفت سے ہوا، حکومت کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ مسجدوں میں ہزاروں لوگ جمعہ کے لیے جائیں گے تو ان میں کچھ افراد کورونا کے مریض بھی ہو سکتے ہیں تو ان کے ساتھ خلط ملط کی وجہ سے ان کے جراثیم (وائرس) دوسروں کے بدن میں اور ان سے ان کے ساتھیوں اور اہل خانہ، وغیرہ کے بدن میں منتقل ہو سکتے ہیں ، پھر  ان کے ذریعہ کثیر نامعلوم افراد اس خطرناک وائرس کے شکار ہوتے رہیں گے لہٰذا ضرر عام سے حفاظت کے لیے دفعہ ۱۴۴ مسجدوں میں بھی سختی کے ساتھ نافذ کر دیا گیا۔
یہ صحیح ہے کہ ہزاروں  لوگ جو مسجدوں میں آئیں گے ان کے بارے میں بس یہ شبہہ ہو سکتا ہے کہ وہ یا ان میں سے کچھ لوگ کورونا کے مریض ہوں گے، مگر یہ شبہہ ناشی عن دلیل ہے سیکڑوں واقعات اور تجربات شاہد ہیں کہ لوگوں نے موہوم محض سمجھ کر اس سے بے اعتنائی کی ، حسب معمول بھیڑ بھاڑ جاری رکھی  اور کورونا وائرس کی زد میں بڑی طرح آگئے یہاں تک کہ  بہت سے کورونا کے معالج بھی کورونا کے مریض اور متعدد لقمۂ اجل ب
نی آلہ (الکٹران مائیکرو اسکوپ) سے ہی اس کا مشاہدہ ہوتا ہے عام خورد بین سے نہیں۔  یہ دنیا کے لیے عذاب، آزمائش اور درس عبرت ہے، یہ بڑی خاموشی کے ساتھ منھ اور ناک کے ذریعہ حلق تک پہنچتا ہے، پھر کچھ دنوں کے بعد اس کا مسکن پھیپھڑا ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کا شکار سانس کے تناؤ اور خشک کھانسی اور شدید بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے، یہ مرض کھانسی ، زکام کے مرض سے بہت مشابہ ہے اس لیے صرف طبی جانچ کے بعد ہی یہ معلوم ہو پاتا ہے کہ یہ ’’ جدید کورونا وائرس‘‘ ہے۔
’’ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو، ایچ ، او) کے مطابق کورونا وائرس کی عام علامات سر درد، کھانسی، بخار، تکان اور سانس لینے میں پریشانی ہے، اس کی علامات کو ظاہر ہونے میں پانچ سے سات روز کا وقت لگتا ہے، مریض کے اندر اس کی علامات چودہ سے بیس دنوں تک بنی رہتی ہیں، ڈبلیو، ایچ، او کے مطابق عام بخار اور کورونا انفیکشن کی بہت سی خصوصیات ایک جیسی ہیں، بغیر طبی ٹیسٹ کے اس کو فرق کر پانا بہت مشکل ہے۔ سردی، بخار، گلے میں انفیکشن ، فلو اور کورونا دونوں کی عام علامات ہیں لیکن ڈبلیو، ایچ ، او کے مطابق کورونا سے متاثرہ شخص کو سانس پھولنے کی شکایت ضرور رہتی ہے۔‘‘ (روز نامہ انقلاب، ۳؍ اپریل ، جمعہ ص: ۷)
ڈاکٹر زبیر صدیقی (ایم بی بی ایس، ایم ایس) نے بتایا کہ
’’مریض کے اندر کورونا کی علامات چودہ سے بیس دنوں تک رہ سکتی ہیں اس کا انحصار قوت مدافعت پر ہے کہ مریض کی یہ قوت کمزور ہو تو کچھ کم و بیش بیس دنوں تک بھی یہ علامات پائی جا سکتی ہیں اور قوت اچھی ہو تو چودہ روز بھی بہت ہیں۔
سردی، زکام میں اس مرض کی وجہ سے سانس نہیں پھولتا اور کورونا کے مریض کا سانس ضرور پھولتا ہے اور تیز تیز پھولتا ہے، اس میں سردی، زکام کے مقابل بخار زیادہ تیز ہوتا ہے، سردی ، زکام میں کھانسی بلغمی ہوتی ہے اور اس وائرس میں خشک ہوتی ہے۔ مریض کے فوت ہو جانے کے بعد اندر کے جراثیم باہر نہیں آ پاتے، وہ وہیں ختم ہو جاتے ہیں، ہاں جسم کے اوپر یہ جراثیم ہو سکتے ہیں۔‘‘
عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے:
’’ کورونا وائرس انسانی پھیپھڑوں میں رہتے ہیں اور سانس کا دورانیہ بند ہو جانے کے بعد یہ جراثیم مردہ ہو جاتے ہیں اور سانس بند ہونے کے سبب باہر نہیں ہوتے۔‘‘ (روزنامہ انقلاب)
الغرض  ایک تو یہ وائرس مکھی ، مچھر ، جوویں کی طرح نظر نہیں آتے کہ دیکھ کر سمجھ لیا جائے کہ بدن میں سرایت کر رہا ہے۔
دوسرے اس کی علامات پانچ ، چھ دن کے بعد ظاہر ہونی شروع ہوتی ہیں۔
تیسرے ان کی علامتیں کھانسی ، زکام سے حد درجہ مشابہ ہوتی ہیں اس وجہ سے مریض یا عام آدمی، بلکہ ڈاکٹر بھی ٹیسٹ سے پہلے یہ سمجھ نہیں پاتے کہ یہ ’’جدید کورونا وائرس‘‘ کے سبب ہے۔
چوتھے یہ کہ اس کے لیے طبی جانچ کا انتظام ہمارے ملک میں بہت محدود ہے جس سے اس وائرس کی شناخت ہو سکتی ہے اور دوسرے ملکوں میں بھی جانچ کے انتظامات بہت وسیع پیمانے پر نہیں ہیں۔
پانچویں یہ کہ دنیا کے پاس اس کا کوئی معین اور شافی علاج نہیں ہے، ابتداءً ایک اندازے سے علاج ممکن ہوتا ہے ، بعد میں دشوار ہو جاتا ہے اس لیے دنیا نے عافیت اسی میں سمجھی کہ اس وائرس سے بچنے کی تدبیر اپنائی جائے اور وہ تدبیر ہے ’’سماجی فاصلہ‘‘ جس کے لیے گھروں میں محدود رہنا ، کسی جگہ پر بھیڑ نہ لگانا ، اپنے ربط و ضبط اور چھینک و تھوک و کھانسی سے دوسروں کو بچانا ضروری ہے اس لیے لاک ڈاؤن کا نفاذ ہوا، لاک ڈاؤن کوئی نعمت نہیں، بلکہ یہ خود ایک ضرر ہے مگر ضرر عام سے بچانے کے لیے ضرر خاص کو مجبورًا گوارا کیا گیا ہے۔
دسمبر ۲۰۱۹ء کے اخیر میں چین کے شہر ’’ووہان‘‘ میں اس وائرس نے جنم لیا، چین نے لاک ڈاؤن کر لیا تو اس کے دوسرے صوبے محفوظ رہ گئے ، مگر بہت سے ممالک نے وہاں کی پروازیں جاری رکھیں تو یہ وبا ہزاروں کلو میٹر دور وہاں بھی پہنچ گئی، پھر جن ممالک نے ان کے  یہاں آمد و رفت کی وہ بھی لپیٹ میں آئے، یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ جن ممالک نے سماجی فاصلے کا حکم جاری کرنے میں دیر کی وہاں اس وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے ہوا، اور جہاں سماجی فاصلہ کا حکم جلدی جاری ہوا وہاں اس کے پھیلاؤ کی رفتار سست رہی۔ ادھر روزنامہ انقلاب، (۱۹؍اپریل) کے ذریعہ معلوم ہوا کہ چین نے مطمئن ہوکر لاک ڈاؤن ختم کر دیا تو پھر ہلاکت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اس کے بعد وہاں کی خبر تاحال موقوف ہے۔
ہم اہل ایمان اسے تسلیم کرتے ہیں کہ جب دنیا میں خداے پاک کی نافرمانی بڑھتی ہے تو وبا نازل ہوتی ہے جو کسی کے لیے عذاب ہوتی ہے اور کسی کے لیے ابتلا و آزمائش ۔ اللہ قادر ہے کہ ساری دنیا اپنی جگہ ٹھہر جائے تو بھی وہ یہ وبا جہاں چاہے نازل فرما دے مگر دنیا کارخانۂ اسباب ہے، خداے قدیر نے اشیا کو اسباب سے جوڑ رکھا ہے، بندے کے ذریعہ اسباب پائے جاتے ہیں تو وہ قادر و توانا اشیا کا خلق فرما دیتا ہے، وہ تخلیق میں اسباب کا قطعاً محتاج نہیں مگر کائنات عالم میں اس کا دستور یہی جاری ہے کہ عموماً اسباب کے نتیجے میں خلق فرماتا ہے، اس
ن گئے ، ان واقعات اور تجربات کی بنا پر یہ شبہہ بہت قوی ہو جاتا ہے تو جیسے فتنے کے شبہہ ناشی عن دلیل کی بنا پر عہد صحابہ و تابعین کی خواتین کو جماعت پنج گانہ اور جمعہ و مسجد سے روک دیا گیا اور جیسے ایذا کے شبہہ ناشی عن دلیل کی بنا پر عام بد مذہبوں کو جمعہ ، جماعت و مسجد سے روک دیا گیا ویسے ہی کورونا وائرس کے شبہہ ناشی عن دلیل کی بنا پر حکومت نے چند افراد کے سوا عامۂ ناس کو جمعہ و جماعت و مسجد سے روک دیا۔
چوتھی دلیل ، تجربات کثیرہ اور اخبارِ متواترہ سے تمسک: جدید کورونا وائرس اب تک کے واقعات، تجربات اور اخبار متواترہ کے مطابق جب سے انسانوں میں آیا ہے انھی میں پایا جاتا ہے اور انھی سے انھی میں پھیلتا ہے، ٹیسٹ سے پہلے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں کورونا زدہ ہے، اور فلاں نہیں ہے کیوں کہ یہ بڑی خاموشی کے ساتھ منہ کے اندر جاکر حلق میں چھپا رہتا ہے پھر تدریجا ً اپنی کمین گاہ سے حملہ کرتا ہے اسی لیے دنیا اس سے بے خبر رہی اور پروازوں کی آمد و رفت ، اور لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کی وجہ سے بڑی سرعت کے ساتھ یہ دنیا کے ۱۸۵ ملکوں میں پہنچ گیا، یہ تجربات اور اخبار متواترہ شاہد ہیں کہ بھیڑ بھاڑ ، میل جول ، اور خلط ملط  اس خطرناک بیماری کے اسباب ہیں۔ بیوع میں متعدد امور میں جہل کے باعث عقد کو ممنوع و ناجائز کہا گیا ہے کیوں کہ وہ مُفضی اِلی النزاع (جھگڑے کا سبب) ہوتا ہے اور یہ تو مُفضی الی الھلاک (ہلاکت کا سبب) ہے آج کی تاریخ میں اس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ اسّی ہزار کے قریب پہنچ رہی ہے جب کہ اس کے مریضوں کی تعداد ۲۵ لاکھ سے متجاوز ہو چکی ۔
الغرض بے شمارواقعات و تجربات اور اطباے عالم کے یکساں نظریات و تحقیقات اور دنیا کی حکومتوں کا ان کے مطابق یکساں کار روائی پر اتفاق اور اصحاب عقل و فہم کا بلا انکار نکیر تسلیم و سکوت انسانوں کی بھیڑ بھاڑ سے پیدا ہونے والے اندیشۂ ضرر کو متحقق کے درجے میں کر دیتا ہے جس پر عام ابواب میں بھی شرعی احکام کی بنا رکھی جاتی ہے کتب فقہ میں اس کے شواہد دیکھے جا سکتے ہیں۔
اخبار متواترہ حجت ہیں، واقعات عامہ و تجربات کثیرہ حجت ہیں، اطباے عالم کا اتفاق اور عقلاے عالم کا قبول و سکوت بھی حجت ہے اس پس منظر میں کورونا وائرس کے تعدیہ و انفیکشن کا جائزہ لیجیے تو اطمینان ہو جائے گا کہ یہ وائرس حقائق ثابتہ سے ہیں، مشاہدات سے ہیں، حیوان اصغر ہیں اور کچھ مادّی اسباب کے ذریعہ ادھر ادھر پھیلتے ہیں۔ بلا شبہہ، ہمیں ہر حال میں اللہ کی ذات پر توکل رکھنا چاہیے مگر توکل نفیِ اسباب کا نام نہیں ہے۔
یہ بات میری فہم قاصر میں آئی اور مجھے امید ہے کہ یہ صواب ہے اور بہر حال میں اس پر اللہ عزّ و جلّ کا شکر ادا کرتا ہوں وہو المُستعان، و ہو حسبي و نعم الوکیل. یہ اس مسئلے میں ایک نئی دلیل کا اضافہ ہے، اس لیے اس پر کوئی کلام نہیں ہے۔
ایک اشکال کا حل اور تفہیم: یہاں ایک اشکال یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ہزاروں کی بھیڑ بھاڑ سے جو اندیشۂ ضرر پایا جاتا ہے وہ پانچ افراد کی بھیڑ بھاڑ سے بھی پایا جاتا ہے پھر پانچ کی اجازت کیوں دی گئی؟
تو عرض ہے کہ :
اوّلاً : یہ وضاحت تو سرکاری حکام سے پوچھنا چاہیے جنھوں نے یہ فرق کرکے عمل درآمد کو لازمی کیا ہے، مفتی نے بس اپنی یہ ذمہ داری نبھائی ہے کہ جو ممنوع ہے اسے ممنوع قرار دیا اور جو مجاز ہے اس کی اجازت دی ہے۔
ثانیاً: ہم جن حالات میں زندگی گزار رہے ہیں ان کے پیش نظر اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہیے کہ پانچ افراد کے ذریعہ جمعہ و جماعت قائم کرنے کی اجازت ہے اس سے یہ دینی فائدہ تو ہے کہ مساجد آباد رہیں گی ، شعائر قائم رہیں گے۔ ہر بات میں رد و انکار کی خو اچھی نہیں، کم سے کم اقامت شعائر کے اذن پر تو سکوت اختیار کرنا چاہیے۔ارشاد نبوی
: ’’فَأتُوْا مِنْہُ مَا استطَعْتُمْ‘‘ ہماری رہنمائی کے لیے کافی ہے۔
ثالثاً : خدام فقہ پر روشن ہے کہ کثیر مقامات پر قلیل معاف ہوتا ہے اور کثیر مبناے احکام۔ جس کے کچھ اسباب ہوتے ہیں، یہاں بھی قلیل کی اجازت دینے کا کچھ سبب ہو سکتا ہے جو ڈاکٹروں سے کوئی بھی سمجھ کر اپنی تشفی کر سکتا ہے۔
یہ بندۂ بے مایہ  یہ سمجھتا ہے کہ چار ، پانچ افراد کے اجتماع سے روکا نہیں جا سکتا کہ کچھ کم و بیش ہر گھر میں اتنے افراد رہتے ہی ہیں ’’ہم دو ، ہمارے دو‘‘ کے اصول پر بھی یہ اجتماع ناگزیر ہے اور جو ناگزیر ہو قانون اس سے صرف نظر کرتا ہے۔
رابعًا : مسجد میں جو پانچ افراد جمع ہوئے وہ معلوم و متعین ہیں ان میں سے کسی کو خدا نہ خواستہ یہ مرض ہوا تو معلوم ہو سکتا ہے  کہ اس کے رابطے میں کون کون لوگ رہے ہیں اس طرح طبی حراست (کوارنٹائن) میں رکھ کر سب کا علاج ہو سکتا ہے لیکن اگر ہزاروں لوگوں کا ازدحام ہوا اور ان سے ہزاروں لوگ رابطے میں رہے تو سب کا حال معلوم کرنا مشکل ہوگا اور اس طرح بیماری کنٹرول سے باہر ہو جائے گی جیسا کہ امریکہ ، اسپین، اٹلی، برطانیہ، وغیرہ میں ہوا۔ خدا محفوظ رکھے۔()
خامساً : ہر کام نہ حکومت کرے گی ، نہ حکومت کا ع
اعتقاد کے پیش نظر ہم مان سکتے ہیں کہ ’’ووہان‘‘ میں کسی خاص سبب کے نتیجے میں ’’جدید کورونا وائرس‘‘ پیدا ہوا، پھر وہاں سے آمد و رفت کے نتیجے میں دنیا کے ۱۸۵ ملکوں تک پہنچ گیا اور آج اس کی وجہ سے دنیا میں کہرام بپا ہے۔ یہ خبر متواتر ہے، اور واقعات و تجربات اس کے شاہد ہیں۔
یہاں آپ سوچ سکتے ہیں کہ حدیث پاک میں ’’ لَا عَدْویٰ‘‘ آیا ہے، یعنی : ’’کوئی بیماری ایک سے منتقل ہوکر دوسرے کو نہیں لگتی‘‘ اور یہ لا نفی جنس کے لیے ہے جو ہر طرح کی بیماری بشمول کورونا وائرس کو شامل ہے اور یہ تو وائرس کے حق میں تعدیہ و انفیکشن ماننا ہے۔
تو عرض ہے کہ کورونا وائرس در اصل کوئی مرض نہیں، مرض تو ایک خاص قسم کی جسمانی کیفیت کا نام ہے جو عرض ہے اور یہ وائرس اللہ کی ننھی ننھی مخلوق ہیں جو جوہر ہیں، تو یہ مرض نہیں، اسبابِ مرض ہیں جیسے جوویں سر میں کھجلی کا سبب ہوتی ہیں مگر وہ خود کھجلی نہیں ہیں اور یہ قرب و اختلاط کے باعث ایک کے سر سے دوسرے کے سر میں منتقل ہو جاتی ہیں اسے حدیث پاک  لا عَدویٰ کے منافی نہیں سمجھا جاتا تو اسی طرح وائرس کی منتقلی کو بھی حدیث مذکور کے منافی نہیں سمجھنا چاہیے ہاں وائرس کی منتقلی چھینک وغیرہ کی ہوا سے ہوتی ہے۔
جوویں اور وائرس میں فرق یہ ہے کہ جوویں سر کی آنکھوں سے بغیر کسی آلے کی مدد کے نظر آتی ہیں اور وائرس خاص قسم کے خوردبینی آلے سے ہی نظر آتے ہیں ، میں نے خود بھی ایک نوع کے وائرس کو خوردبین کے ذریعہ مشاہدہ کیا ہے، دوسرا فرق یہ ہے کہ جوویں سر اور کپڑے میں رہ کر اپنا کام کرتی ہیں وہ منہ کے اندر نہیں جاتیں مگر یہ وائرس اندر جاتے ہیں اور اپنا بسیرا پھیپھڑا میں بناتے ہیں ۔ تیسرا فرق یہ ہے کہ جوویں سر، بدن اور کپڑے میں رہتی ہیں جب کہ کورونا وائرس فضا میں بھی منتقل ہو جاتے ہیں، ۱۳؍ اپریل ۲۰۲۰ء کے انقلاب ص ۹ میں یہ خبر شائع ہوئی ہے:
’’طبی ماہرین نے کورونا وائرس کے مریضوں کے وارڈ سے ہوا کے نمونوں کا جائزہ لینے کے بعد انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس تیرہ فٹ تک فضا میں سفر کر سکتا ہے، واضح رہے کہ اب تک چھ فٹ کا فاصلہ رکھنے کی تاکید کی جا رہی تھی جب کہ حالیہ تحقیق میں ثابت ہوا کہ یہ وائرس تیرہ فٹ تک فضا میں سفر کر سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق چینی محققین کی تحقیقات کے ابتدائی نتائج جمعہ کو امریکی مرکز کے جریدے ’’ سی ، ڈی، سی ، میں شائع ہوئے۔‘‘
جیسا کہ ہم نے بیان کیا  کہ ’’ جدید کورونا وائرس‘‘ کسی بیماری کا نام نہیں، یہ تو جاندار جراثیم ہیں جو اللہ کی ایک نئی مخلوق ہیں، ان کی وجہ سے جسم کے اندر ایک مہلک بیماری پیدا ہوتی ہے مجازاً اس بیماری کو بھی کورونا وائرس کہنے لگے ، مختصر یہ کہ کورونا ایک حقیقی جسم ہے، جاندار ہے، جیسے بہت سے انتہائی چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے حقیقی جسم اور جاندار ہیں ، یہ اگر کسی ذریعہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تو اسے حدیث نبوی : ’’لا عدویٰ‘‘ کے مخالف نہیں سمجھا جاتا ، اسی طرح بیماری کے وائرس مثلاً جدید کورونا وائرس بھی چھینک اور تھوک وغیرہ مادی اسباب کے ذریعہ دوسرے کی ناک یا منھ میں چلے جائیں، پھر وہ کسی خطرناک یا مہلک بیماری کا سبب بن جائیں تو اسے بھی حدیث نبوی: ’’لا عدویٰ‘‘ کے خلاف نہیں سمجھنا چاہیے()، اسباب کے ذریعہ مسبب کا وجود ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے اس کا انکار نہیں ہونا چاہیے ، حدیث پاک میں مرض کے تعدیہ کی نفی کی گئی ہے، وائرس اور جراثیم کے تعدیہ کی نفی نہیں کی گئی، منہاج شرح صحیح مسلم میں ہے:
إنّ حدیث ’’لا عدوى‘‘ المراد به نفي ما كانت الجاهليّة تزعمُه و تعتقده أنّ المرض و العاهة تعدّى  بطبعها، لا بفعل الله تعالى.
(شرح صحيح  مسلم، ج:۲،  ص: 230)
ترجمہ: حدیث لا عَدویٰ سے مراد زمانۂ جاہلیت کے اس اعتقاد کی نفی ہے کہ بیماری اور وبا بذات خود دوسرے کو لگ جاتے ہیں، نہ کہ اللہ تعالیٰ کے فعل اور تاثیر سے لگتے ہیں۔
اس طرح  حدیث بھی قیامت تک کے لیے صادق رہتی ہے اور وائرس کے مشاہدہ و حقیقت کا انکار بھی نہیں ہوتا۔ علماے کرام کو اس معروضے پر بہت ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدّس سرّہ نے اپنے رسالۂ مبارکہ  الحقُّ المجتلیٰ میں یہی وضاحت فرمائی ہے کہ بیماری اڑکر ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل نہیں ہوتی ، یہ نہیں فرمایا ہے کہ جراثیم ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل نہیں ہوتے۔ آج کے اطبّا اور ڈاکٹرس اسی کے قائل ہیں کہ جراثیم کا انفیکشن ہوتا ہے، جراثیم منتقل ہوتے ہیں، وہ یہ نہیں کہتے کہ عین بیماری ہی منتقل ہو جاتی ہے اور وہ جو کچھ کہتے ہیں آنکھوں سے دیکھ کر کہتے ہیں، وہ الکٹران مائیکرو اسکوپ کی مدد سے اس ننھی مخلوق کا مشاہدہ کرتے ہیں اور یہ ان کے یہاں ایک مسلّمہ حقیقت ہے، ہاں وہ مجازاً اسے بیماری کا انفیکشن بولتے ہیں اور اس طرح کا مجاز ہماری بول چال میں بھی شائع و ذائع ہے۔
لاے نفی جنس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جنس کے تحت جتنے افراد  آتے ہیں سب کی نفی کردی گئی، مگر جو چیزیں جنس کے دائرے سے باہر ہیں ان کی

ملہ، کچھ ہمیں بھی کرنا چاہیے۔
جن لوگوں کو کھانسی ، زکام، بخار، سانس کی تکلیف ہو ان سے گزارش کی جائے کہ وہ اپنے گھر پر نماز پڑھیں اور جماعت قائم کرنے کے لیے چار، پانچ صحت مند افراد کا تعین کر دیا جائے تو پھر ان پانچ افراد میں وائرس کا اندیشہ کم سے کم ہو جائے گا ۔ مشکل گھڑی کو اس طور پر گزارنا چاہیے کہ مسجدیں آباد رہیں، شعائر اللہ قائم رہیں، وائرس کا اندیشہ بھی امکانی حد تک کم ہو اور قانون شکنی بھی نہ لازم آئے۔
اے چمن والو، چمن سے یوں گزرنا چاہیے
باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی
ضروری آگاہی: (الف) جتنے دلائل مذکور ہوئے ان سب میں ایک خاص بات یہ بھی جوڑئیے کہ لاک ڈاؤن اور دفعہ ۱۴۴ پر عمل درآمد کے لیے پولیس اور اعلیٰ حکام پوری طرح مستعد ہیں جہاں کوئی اس کی خلاف ورزی کرتا ہے پولیس کا عملہ مسجد میں گھس کر ایک ایک کو بُری طرح سے مار مار کر نکالتا ہے اور امام و نمازی زخمی حالت میں رسوا ہوکر کراہتے ہوئے نکلتے ہیں، یہ کسی سے مخفی نہیں، جس نے نہ دیکھا وہ انٹرنیٹ پر دیکھ سکتا ہے، یا اپنے طور پر تحقیق کر سکتا ہے، لہٰذا ہمیں کورونا وائرس کے ضرر کو بہر حال اس ضرر شدید سے جوڑ کر دیکھنا چاہیے، یہ ضرر کورونا کے خوف کا ہی مظہر ہے۔
جمعہ کی عظمت شان کا عالم یہ ہے کہ ایک ہفتہ کے بے نمازی بھی جمعہ کے روز اپنے کاروبار بند کرکے مسجد ضرور آتے  ہیں اس لیے جب دروازہ کھلا رہے گا تو مسلمان شوق جمعہ میں مسجد آنے کی کوشش ضرور کریں گے اور آنے کی صورت میں وہی بھیانک انجام سامنے آئے گا، ہم نے لاک ڈاؤن کے پہلے جمعہ میں دروازے کی کنڈی نہ لگانے کی اجازت دی تھی مگر جب بھیانک نتائج سامنے آئے تو دوسرے جمعہ سے دروزاہ بند کرنے کی اجازت دے دی۔
ہماری شریعت کا ایک اصول ’’ سدِّ ذرائع‘‘ بھی ہے ، اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
مگر ’’سَدِّ ذرائع ‘‘ داب ہے اُن کی شریعت کا
بھیانک نتائج آنکھوں کے سامنے آ چکے ، اس کے بعد ہمارے پاس سوال آتا ہے کہ مسجد کا دروازہ بند کر دیں، یا کھلا رکھیں؟
ہم نے سوچا اگر قوم علما کی ہدایت پر گھروں میں تنہا تنہا ظہر پڑھنے پر صبر کر لے تو ضرور دروازہ کھلا رہنا چاہیے، مگر ہم نے لوگوں کے مزاج کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس نتیجے پر پہنچے کہ سَدِّ ذرائع کے طور پر باب مسجد بند کرنے  میں ہی عافیت ہے ورنہ علما  و ائمہ کا سر کبھی بھی اور کہیں بھی شرم سے جھک سکتا ہے اور قوم ذلیل و رسوا ہو سکتی ہے، ہمیں حالاتِ زمانہ اور احوال ناس پر نظر رکھنے کا بھی حکم ہے اور فقہی اصول و فروع سے وابستہ رہنے کا بھی ۔ اس لیے
ہم نے سب کو دیکھا، پرکھا، سمجھا اور جو کچھ سمجھا وہ سب آج آپ کی خدمت میں پیش بھی کر دیا، جب مجھے ہر طرح سے اطمینان ہو گیا کہ غلقِ باب کے جواز میں کوئی کلام نہیں ہے تو پھر توکّلاً علی اللہ وہ فتویٰ جاری کر دیا کہ:
جہاں ممکن ہو دروازہ ہلکا سا کھلا رکھیں اور اگر یہ سمجھیں کہ اس میں دقت آ سکتی ہے تو دفعِ ضرر کے لیے دروازہ بند رکھ سکتے ہیں، جمعہ صحیح ہوگا۔
جنھوں نے اس پر عمل کیا محفوظ رہے اور جو اس سے غافل ہوئے مشقت میں پڑے، خداے پاک انھیں اور سب کو اپنے لطف و کرم سے نوازے۔ آمین
(ب) حکومت کے اعلیٰ حکام ، پولیس کا عملہ اور ان کے ذمہ داران کورونا وائرس کے اندیشۂ ضرر اور پھیلاؤ سے بچنے کے لیے زیادہ بھیڑ بھاڑ سے روکتے ہیں جیسا کہ تفصیل سے بیان ہوا، اور کمیٹی یا ٹرسٹ کے افراد ایک تو وائرس کے اندیشۂ ضرر اور پھیلاؤ سے بچنے کے لیے زیادہ بھیڑ بھاڑ سے روکتے ہیں، دوسرے پولیس کی زد و کوب اور قانونی کار روائی سے تحفظ کے لیے بھی روکتے ہیں اور بہر حال پولیس کا یہ عمل نماز یا لازم نماز سے روکنے کے لیے نہیں ہے بلکہ وائرس کے پھیلاو سے روکنے کے لیے ہے اس لیے حکام، پولیس ، ٹرسٹ ، کمیٹی سب کا یہ عمل براہ راست یا بالواسطہ کورونا وائرس سے بچنے، بچانے کے لیے ہی ہے تو غلقِ باب (دروازہ بند کرنا) بھی سدّ ذرائع کے طور پر اسی کورونا سے ہی بچنے کا ایک ذریعہ ہے۔
مضمرات اور درخشاں جلوے : (۱) پہلی دلیل در مختار کے جزئیہ کے یہ دو کلمات ہیں:
وَغلقُہٗ لمنع العدوّ لا المصليّ. لو لم یغلق لکان أحسن.
پہلے جز میں صاحب در مختار نے اشارۃً بھی اس پر کوئی روشنی نہیں ڈالی ہے کہ نمازیوں پر دشمن کے حملے کا خطرہ متحقق ہے، یا مظنون بظن غالب ہے، یا مشکوک و مشتبہ ہے، لیکن اسی جزئیے میں فوراً بعد یہ فرماکر کہ ’’دروازہ بند نہ کیا جائے تو زیادہ اچھا ہے‘‘ واضح کر دیا ہے کہ یہاں دشمن کے حملے کا خطرہ مشکوک و مشتبہ ہے۔ یہ مضمر نہیں ہے، بلکہ اس کا جلوۂ نور حق تک رسائی کے راستے روشن کرتا ہے مگر عدم التفات کے باعث مخفی رہ گیا۔
(۲) دوسری دلیل عورتوں کو مسجد اور جمعہ و جماعت سے روکنے کا مسئلہ ہے جس کی دلیل ہدایہ میں لِـمَـا فیہ مِن خوفِ الفتنۃ سے دی گئی ہے کہ عورتوں کو مسجد کی حاضری میں فتنہ کا اندیشہ ہے۔
(الف) فتنے کبھی عورت کی نگاہ و دل سے اٹھتے ہیں اور کبھی فاسقوں کی بد نیتی و بدنگاہی سے۔
یہ مختصر

عبارت دونوں فتنوں کو شامل ہے اور دونوں کو ہی حکم ممانعت کی علت قرار دیتی ہے خواہ یہ فتنہ تنہا تنہا پایا جائے یا اجتماعی طور پر۔ تنہا تنہا ہو تو بھی حکم ممانعت اس کے ساتھ گردش کرے گا اور کہیں دونوں کا اجتماع ہو تو یہ حکم بدرجۂ اولیٰ گردش کرے گا۔اور دونوں صورتوں میں چوں کہ فتنے کا محل عورتیں ہیں اس لیے ممانعت انھیں کو ہوئی۔
(ب) اس فتنے کے مختلف ادوار ہیں:
خیر القرون دورِ حیا، کہ بدن پر پوشاک برقرار ہو دورِ عریانیت، یہ موجودہ دور ہے ما بعد عریانیت، جس کا ذکر احادیث میں ہے۔
عہد صحابہ سے لے کر قرب قیامت تک کے یہ چار ادوار ہیں اور ہدایہ کی عبارت میں ان چاروں ہی ادوار کا احاطہ کیا گیا ہے۔
’’قرن مقدس‘‘ میں وہ دونوں طرح کے فتنے مشتبہ تھے پھر بھی ممانعت ہوئی
’’عہدِ حیا‘‘ میں ان فتنوں کے دواعی بہت بڑھ گئے تو ممانعت بدرجۂ اولیٰ ہوئی۔
’’عہد عریانیت‘‘ میں یہ فتنہ ایک حد تک مظنون بظن غالب سمجھا جاتا ہے تو ممانعت ضرور بدرجۂ اولیٰ ہوگی۔
’’ما بعد عریانیت‘‘ اللہ کی پناہ ، جب فتنہ شکل مجسم میں موجود ہوگا تو اُس وقت ممانعت بدرجہا اولیٰ ہوگی۔
ہر قرن اور عہد کے مفتی اس کلام وجیز و جامع سے استدلال کر سکتے ہیں، ہم نے اپنے استدلال کی بنیاد قرن مقدس کے احوال پر رکھی ہے۔
(۳) تیسری دلیل ’’وَ یُمنع منہ کلّ موذٍ‘‘ ہے جو در مختار کی عبارت ہے ، لفظ موذی مشتق ہے، اس لیے علتِ ممانعت ’’ایذا ‘‘ قرار پائی۔
ہم نے اپنے فتوے میں موذی کی ایک نوع اجماعی کے تین احوال بیان کیے ہیں جو واقعہ کے مطابق ہیں، پھر تیسرے درجے کے افراد کے حکم سے استدلال کیا ہے اور کثیر یہی تیسرے درجے کے احوال والے ہیں، یہاں مُوذی کے عموم میں بد مذہب کا شمول متفق علیہ ہے اور لفظ موذی بد مذہب کے تینوں احوال کا حکم بیان کرتا ہے کسی حال کا بطور شبہہ اور کسی کا بطور ظنِّ غالب، ہمارا استدلال ’’موذی مشتبہ‘‘ سے ہے۔ اور ان تمام مقامات پر شبہہ سے مراد شبہہ  ناشی عن دلیل ہے۔
ہمارا مقصود اس شرح و بیان سے بس یہ ہے کہ جو لوگ ان دلائل کو سمجھنا چاہتے ہیں وہ سمجھ کر مطمئن ہو جائیں، اور اللہ راضی رہے، نہ کسی کی تنقید، نہ کسی کا رد۔
نہ غرض کسی سے ، نہ واسطہ ، مجھے کام اپنے ہی کام سے
تیرے ذکر سے، تیری فکر سے، تیری یاد سے ، تیرے نام سے
ہم سب کے خیرخواہ ہیں اور سب کے لیے دعاے خیر کرتے ہیں۔ و ما علینا إلّا البلاغ المبین۔
خلاصۂ کلام
اور تمام مسلمان بھائیوں سے مؤدبانہ گزارش
۱- امکانی حد تک قانون کی خلاف ورزی سے بچنا واجب ہے اس لیے لاک ڈاؤن اور دفعہ ۱۴۴ کے تقاضوں پر عمل پیرا ہوں اور اپنے وقار و شعار کو بچائیں۔
۲- ہم نے اپنے موقف پر نظر ثانی کر لی، وہ الحمد للہ حق ہے جیسا کہ اس تحریر سے عیاں ہے، موجودہ حالات اور تجربات کی روشنی میں دروازہ بند کرکے مخصوص تعداد میں لوگ جمعہ پڑھیں ، تاکہ شعار قائم رہے۔
۳- ہمیں احساس ہے کہ آپ کو جماعت جمعہ میں حاضری کا بے پناہ شوق ہے، یہی حال رمضان کی جماعتِ پنج گانہ اور جماعتِ تراویح کا بھی ہے، ان سے محرومی سوہانِ روح سے کم نہیں، لیکن خداے کریم کی رحمت سے امید رکھیے، جو لوگ کسی عذر اور مجبوری کی وجہ سے محروم ہو رہے ہیں امید ہے کہ رب کریم انھیں محروم نہ فرمائے گا، اور رمضان کی جماعت جمعہ ، جماعتِ پنج گانہ، جماعتِ تراویح سب کا ثوابِ عظیم عطا فرمائےگا۔
اس لیے آپ جماعت کے لیے مسجد کے پاس یا کہیں بھی ہجوم نہ کریں، اپنےگھروں میں جماعت سے یا تنہا اخلاص کے ساتھ سب نمازیں پڑھیں خداے پاک کے خزانۂ کرم میں کوئی کمی نہیں ہے۔
محمد نظام الدین رضوی
۲۸؍ شعبان المعظم ۱۴۴۱ھ صدر المدرسین و صدر شعبۂ افتا جامعہ اشرفیہ
۲۳؍ اپریل ۲۰۲۰ء (جمعرات) مبارک پور، اعظم گڑھ ، یوپی

No comments:

Post a Comment