Saturday, June 20, 2020

Corona Virus Research -Muhammad Zaien Qaadiri



corona


"علامہ کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب پر اٹھاۓ گۓ 
اعتراضات کا تحقیقی جائزہ"

تحریر و تحقیق: محمد زین قادری

29 مئ 2020 کو "کورونا وائرس کی آڑ میں کیا ہورہا ہے" کے عنوان سے حضرت علامہ ڈاکٹر کوکب نورانی اوکاڑوی صاحب کا بہت ہی عمدہ پیغام سوشل میڈیا پر نشر ہوا جس پر بعض حضرات نے اپنی کم علمی، نادانی اور بے شرمی کی وجہ سےعلامہ صاحب جیسے بزرگ عالم دین کو اپنا ہدفِ تنقید و توہین بنایا جس کی جتنی بھی مذمت کی جاۓ کم ہے۔ معترضین کا یہ دعوی ہے کہ علامہ صاحب کی وہ تقریر بے بنیاد اور من گھڑت باتوں پر مبنی ہے جو کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے بھی خلاف ہے اور عقل بھی ان باتوں کو تسلیم نہیں کرتی۔ میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا طالب علم ہوں اور اس شعبے کے بارے میں بہت کم معلومات رکھنے کے باوجود دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ علامہ صاحب کی وہ باتیں ہرگز بےبنیاد نہیں ہیں۔ علامہ صاحب کی اس تقریر میں سے ان تین باتوں پر بہت تنقید ہوئی:
1) اسلام دشمن قوتیں ویکسین کے ذریعے آپ کا مزاج قابو کرنا چاہتی ہیں۔
2) وہ ویکسین کی آڑ میں  آپ کے جسم میں ایک مائیکرو چِپ (Microchip) نصب کرنا چاہتے ہیں۔
3) وہ دنیا بھر کے لیے ایک واحد عالمی ڈیجیٹل کرنسی کا نظام لانا چاہتے ہیں۔

ان شاءاللہ اس تحریر میں ان باتوں اور ان پر اٹھاۓ گۓ اعتراضات کا تحقیقی جائزہ لیا جاۓ گا اور میں پُر امید ہوں کہ اس تحریر کے حرف آخر تک پہنچتے پہنچتے آپ کے بہت سے سوالات اور ذہنی الجھنوں کے جوابات  آپ کو مل جائیں گے۔

مزاج قابو کرنا کیسے ممکن ہے؟ یہ تو محض ایک خیالی افسانہ معلوم ہوتا ہے؟
آہ! کاش کہ کچھ پڑھا ہوتا، کاش کہ حالاتِ حاضرہ کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کی ہوتی، کاش کہ دشمنانِ اسلام کے ناپاک عزائم کے متعلق کچھ خبر و  آگہی ہوتی تو  آج اپنی کم علمی اور کم عقلی کے باعث ایک بزرگ عالمِ دین کی توہین کا وبال اپنے سر نہ لیتے۔
دماغ اور مزاج کو قابو کرنے کے اس علم کو جینیاتی معماری (Genetic Engineering) کہا جاتا ہے اور مغرب اس پر ایک عرصہ دراز سے تحقیق کررہا ہےاور اس کے تجربات کا باقاعدہ آغاز امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے نے  آج سے 70 سال پہلے ہی پروجیکٹ ایم کے الٹرا (Project MKUltra) کے نام سے کردیا تھا۔ امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر مارک فلپس نے 1995 میں اپنی کتاب "Trance Formation of America" کے صفحہ نمبر 5 پر اس پروجیکٹ کی معاشرے پر اثر اندازی کو ان الفاظ میں لکھا:
"ہم لوگ اس خوش فہمی میں ہیں کہ ہم اپنی زندگی کے اچھے اور برے فیصلے لینے میں آزاد ہیں جبکہ بدقسمتی سے حقیقت یہ نہیں ہے۔ یہ بات  ثابت شدہ ہے کہ دماغ قابو کرنے والی ظالم قوتیں معاشرے کو بہت تیزی سے تباہ کررہی ہیں۔"
اسی کتاب کے صفحہ نمبر 80 پر امریکی تجزیہ نگار كیتھلین اوبرائن کا بیان بھی موجود ہے جو کہ اس پروگرام کے ابتدائی متاثرین میں سے ایک ہیں:
"امریکی حکومت ایک انتہائی خفیہ، غیرقانونی اور ‏غیرآئینی طریقے سے دنیا میں ایک مرکزی حکومت لانے کی تیاری کررہی ہے۔ یہ جدید طریقہ انسانوں کا مزاج قابو کرنے کے لیے نہایت مؤثر ہے۔"
اس کے علاوہ اس پروجیکٹ کی ایک اور مظلوم برائس ٹیلر نے اپنی کتاب "Thanks for the Memories" میں اور امریکی نفسیات داں سوالی نے اپنی کتاب "Mind Control Survivor" میں اس پروجیکٹ کے حقائق کو بیان کیا ہے۔

اب ذہن میں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر مزاج قابو کرنے کی اس حقیقت کو مان بھی لیا جاۓ تب بھی یہ کیسے ممکن ہے کہ ویکسین میں اتنی صلاحیت آجاۓ  کہ اس کے ذریعے مزاج قابو کیا جاسکے؟
اگر جینیاتی معماری میں نینو ٹیکنالوجی کی مدد لے لی جاۓ تو  ویکسین کے ذریعے مزاج قابو کرنا باآسانی ممکن ہوجائیگا۔ مغربی دنیا اپنے وسائل کا ایک بہت بڑا حصہ نینو ٹیکنالوجی کی تحقیق میں صَرف کررہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے روبوٹس تیار کیے جارہے ہیں جنہیں نینو بوٹس (Nanobots) کہا جاتا ہے اور انہیں کی مدد سے ویکسین کو مزاج قابو کرنے کے قابل بنایا جاسکے گا۔ مشہور امریکی محقق و سائنسدان ڈاکٹر فرٹز ایلہوف نے 2010 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب "What Is Nanotechnology" کے صفحہ نمبر 14 سے 62  تک نینو ٹیکنالوجی کے بارے میں نہایت حیران کردینے والی باتیں لکھیں تھیں جو کہ آج سچ ثابت ہورہی ہیں:
"کچھ سہولیات جو کہ نینو ٹیکنالوجی ہمیں مستقبل میں دینے والی ہے وہ آج محض افسانے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ آنے والے وقتوں میں نینو ٹیکنالوجی انسان کی جسمانی گارکردگی کو بڑھانے کے لیے استعمال ہوگی۔نینو بوٹس کی رسائی انسانی جسم میں وہاں تک ہوگی جہاں تک رسائی کا آج گمان بھی نہیں ہے۔ ریت کے زرات کے برابر سائز والے ان نینو بوٹس کی مدد سے سرجری کو اس طرح ترتیب دیا جاسکے گا کے وہ انسانی جسم میں داخل ہوکر صرف خاص ریشوں (Tissues) اور اعضاء (Organs) کو ہدف بناکر اپنا کام کریں گے۔ ایسی ادویات ایجاد کی جاسکیں گی جو کہ جسم میں داخل ہوکر صرف خاص خلیوں (Cells) پر اثر کریں گی۔"




ایک سوال ہے کہ علامہ صاحب نے تو کبھی کوئی متنازع بیان نہیں دیا مگر آپ لوگوں نے پھر بھی انہیں ہدف توہین بنایا جب کہ دیگر بہت سے تجزیہ نگاروں نے بہت سے متنازع بیان دیے چاہے وہ زید حامد صاحب کا کورونا کو جعلی عالمی وبا کہنا ہو یا پھر نورالعارفین صاحب کا اسے امریکہ کی ایجاد کہنا ہو لیکن آپ حضرات نے ان کے خلاف تو کبھی لب کشائی نہیں  کی۔  کیا یہ دہرا معیار نہیں ہے؟ کیا ایک عالم دین کی تحقیق کو بنا سوچے سمجھے رد کرنا آپ حضرات نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے؟ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ میٹرک فیل لوگ بھی ایک پی ایچ ڈی اسکالر کی تحقیق پر تبصرے کررہے ہیں۔
اب ان باتوں کے پیچھے کس کا کیا مقصد تھا یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر اس بات میں بھی  کوئی شک نہیں ہے کہ اپنی کم علمی اور کم عقلی کی وجہ سے کچھ لوگوں نے خود کو ایک عالم باعمل کی توہین کے عذاب میں مبتلا کرلیا ہے۔ تفسیر کبیر میں ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ اَھَانَ الْعَالِمَ فَقَدْ اَھَانَ الْعِلْمَ وَ مَنْ اَھَانَ الْعِلْمَ فَقَد اَھَانَ النَّبِیَّ
ترجمہ: "جس نے عالم کی توہین کی اس نے علم کی توہین کی اور جس نے علم کی توہین کی اس نے نبی کی توہین کی"

میں علامہ صاحب کے بارے میں نازیبا کلمات ادا  کرنے والوں سے بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ چاند کو دیکھ کر بھیڑیوں کے غرّانے سے چاند کی روشنی پر کچھ کمی نہیں آۓ گی۔ چاند کل بھی روشن تھا، چاند آج بھی روشن ہے اور چاند صبح قیامت تک روشن رہے گا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا:

فانوس بن کے جس کی حفاظت ہَوا کرے
وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

اللہ پاک ہمیں علماء حق کی ‏عزت و توقیر کرنے اور ان کی صحبت کا شرف حاصل کرتے رہنے کی توفیق عطا فرماۓ۔
آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ واصحابہ وبارک وسلم

طالب دعا،
احقرالعباد محمد زین قادری غفرلہ
یجیۓ کہ اگر اس ٹیکنالوجی کا مثبت پہلو ہے تو کیا منفی نہیں ہوگا؟

کچھ دنوں پہلے امریکہ کے دفاعی مرکز پینٹاگون کی ایک خفیہ میٹنگ جو کہ 13 اپریل 2005 کو ہوئی تھی اس کی ویڈیو منظر عام پر آئی۔ اس ویڈیو میں واضح طور پر سنا جاسکتا ہے کہ کہنے والا کہہ رہا ہے:
"ایک پروجیکٹ کا آغاز ہوگا جس کا نام فن ویکس (FunVax) ہوگا اور اس کے تحت مذہبی طبقے کے لیے ایک ایسی ویکسین بنائی جاۓ گی جس سے ان کے دماغ سے مذہبی جنون نکالا جاسکے گا۔"

اس ویڈیو کے منظر عام پر آتے ہی دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ دنیا بھر کے بہت سے محققین نے اس پروجیکٹ کا تعلق گیٹس فاؤنڈیشن سے جوڑا۔ حال ہی میں جرمنی کے شہر برلن میں بل گیٹس کے خلاف احتجاج ہوا جبکہ امریکہ میں تو بل گیٹس کے خلاف "My Body Your Choice" کے عنوان سے متعدد احتجاج ہوۓ۔ مشہور امریکی سیاسی خاکہ نگار بین گیریسن نے "Plannedemic" کے نام سے بل گیٹس کے خلاف خاکے بھی شائع کیے۔ روس کے سرکاری ٹی وی چینل پر اس خبر کو نشر کیا گیا۔ پاکستان میں بھی کچھ تجزیہ نگاروں نے اس پر تبصرہ کیا جن میں دفاعی تجزیہ کار سید زید زمان حامد کا نام نمایاں ہے۔ دوسری طرف گیٹس ‌فاؤنڈیشن نے ان تمام الزامات کی تردید کردی ہے۔ یہ سازش چاہے کسی کی بھی ہو مگر یہ بات ثابت شدہ ہے کہ ویکسین کے نام پر مزاج کو قابو کرنے کے منصوبہ صیہونی طاقتیں ایک عرصہ دراز سے تشکیل دے رہی ہیں۔ مشہور امریکی جرنلسٹ جم مارس نے 2010 میں شائع ہونے والی اپنی کتاب "The Trillion-Dollar Conspiracy" کے صفحہ نمبر 142 پر ادویات کے نام پر ہونے والی ان سازشوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
"ماضی میں جب کوئی بچہ پڑھائی پر توجہ نہیں دیتا تھا تو استاد اسے سزا دیتا تھا لیکن اب اگر کوئی بچہ پڑھائی پر توجہ نہیں دیتا تو اس کے والدین کو یہ کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ عدم توجہی کے مرض (Attention deficit hyperactivity disorder) کا شکار ہے اور اسے ماہر نفسیات کے پاس لے جانے کا مشورہ دیا جاتا ہے جو کہ اکثر و بیشتر اس بچے کو ایک خاص دوا تجویز کردیتا ہے۔ امریکہ میں 1987 تک اس خاص دوا کو استعمال کرنے والے بچوں کی تعداد 500،000 تھی جبکہ 2001 تک یہی تعداد بڑھ کر 6 ملین تک جا پہنچی تھی۔"

14 جنوری 2014 کو نامور امریکی ریسرچ اسکالر اینتھنی پیچ نے اپنے ایک انٹرویو میں کورونا وائرس کے حوالے سے انتہائی چونکا دینے والے انکشافات کیے تھے:
"ایک اور مصنوعی بیماری کا میں ذکر کرتا چلوں جس کا نام کورونا وائرس ہے۔ اس وائرس کو تخلیق کرنے کا مقصد انسانوں کو نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار کی گئ ایک خاص ویکسین لینے پر مجبور کرنا ہے۔ اگر ایک مرتبہ وہ ویکسین انسانی جسم میں داخل کردی جاۓ تو انسان اس شعور سے بھی محروم ہوجائیگا کہ وہ اپنے فیصلے کرنے کی آزادی اور اختیار سے محروم ہوچکا ہے اور مزید یہ ہوگا کہ انسان اپنے مذہبی، اخلاقی اور ادبی اقدار سے محروم کردیا جاۓ گا۔"
امید کرتا ہوں کہ مندرجہ بالا دلائل سے ویکسین کے ذریعے مزاج قابو کرنے کے حوالے سے اعتراضات دور ہوگۓ ہوں گے۔
آئیے اب ویکسین کی آڑ میں جسم میں ایک مائیکرو چِپ  نصب کرنے والی بات پر ہونے والے اعتراضات کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
انسانی جسم میں مائیکرو چِپ نصب کرنا کیسے ممکن ہے؟
امریکی جرنلسٹ جم مارس نے اپنی  کتاب "The Trillion-Dollar Conspiracy" کے صفحہ نمبر 274 پر انسانی جسم میں مائیکرو چِپ نصب کرنے کے حوالے سے لکھا ہے کہ:
"اگر انسانی جسم میں مائیکرو چِپ کا نصب کرنا آپ کو کوئی فلمی کہانی یا افصانہ معلوم ہوتا ہے تو جان لیجۓ کہ سوئٹزرلینڈ کی مشہور دواساز کمپنی نووارٹس اس کا تجربہ کرچکی ہے۔"

اطلاع کے لیے عرض ہے کہ انسانی جسم میں مائیکرو چِپ نصب کرنا آج سے انیس سال پہلے بھی ممکن تھا۔ 2001 میں حفاظتی ٹیکنالوجی پر تحقیق کرنے والی امریکی کمپنی اپلائیڈ ڈیجیٹل سولوشنز  نے ویری چِپ (VeriChip) کے نام سے ایک مائیکرو چِپ متعارف کروائی تھی جس کا سائز چاول کے دانے کے برابر تھا اور اسے بذریعہ سرنج انسانی جسم میں نصب کیا جاتا تھا۔ اس چِپ کے بارے میں مزید تفصیلات ڈاکٹر فرٹز ایلہوف کی کتاب "What Is Nanotechnology" کے صفحہ نمبر 204 پر مل جائیں گی۔
مذکورہ بالا ایجاد 2001 کی ہے جبکہ آج انیس سال بعد اس مائیکرو چِپ ٹیکنالوجی میں بہت جدت آچکی ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں ہونے والی مزید پیش رفت کے بارے میں آن لائن انسائیکلوپیڈیا ویب سائٹ ویکیپیڈیا پر پڑھا جاسکتا ہے۔
حال ہی میں یورپی ملک سوئیڈن میں آر ایف آئی ڈی (Radio-frequency identification) نامی مائیکرو چِپ بہت مقبول ہوئی اور ایک اندازے کے مطابق اب تک ہزاروں افراد اس چِپ کو اپنے جسم میں نصب کرواچکے ہیں اور اس کے متعلق 22 فروری 2019 کو قطری ٹی وی چینل الجزیرہ نے ایک تحقیقی رپورٹ بھی نشر  کی تھی۔
مگر یاد رہے کہ اس مائیکرو چِپ کا منفی استعمال بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ محققین ہمیں مسلسل آگاہ کررہے ہیں۔ 19 نومبر 2019 کو جاپانی خبر رساں ادارے کوار
ٹز نے ایک آرٹیکل شائع کیا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنے والے وقت میں اس مائیکرو چپ کے ذریعے دماغ اور مشین کا براہ راست رابطہ ممکن ہوسکے گا اور کیونکہ ہمارا دماغ ہماری خلوت کی آخری سرحد ہے لہذا اس چِپ سے ہماری رازداری پر بہت برے اثرات مرتب ہوں گے۔ مثال کے طور پر اگر اس چِپ میں بایو میٹرک سینسر نصب کردیا جاۓ تو ہمارے جسم کی مکمل معلومات تک اداروں کو رسائی حاصل ہوجاۓ گی۔ مشہور اسرائیلی مفکر یوول نوح ہراری نے اپنی کتاب "Twenty-one lessons for the 21st century" کے صفحہ نمبر 57 سے 227  تک اس ٹیکنالوجی کے ممکنہ استعمال پر تفصیل سے بحث کی ہے:
"دماغ اور کمپیوٹر کے براہ راست رابطے (Brain–computer interface) اور حیاتی معماری (Bioengineering) کے اشتراک کی وجہ سے اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ انسانی جسم آنے والے وقتوں میں بے مثال انقلاب سے گزرے گا۔ بایو میٹرک سینسر کی مدد سے ہمارے جسم کی 24 گھنٹے  نگرانی کی جاسکے گی۔ ہمارے جسم میں پیدا ہونے والی کسی بھی بیماری کا علم ہم سے پہلے نگراں اداروں کو ہوگا اور صرف یہی نہیں بلکہ انہیں آپ کے غم و خوشی کے جذبات  تک کا علم ہوگا۔"

ہماری عوام ابھی تک ویکسین اور مائیکرو چِپ کو لے کر حیران و پریشان ہے جب کہ دوسری طرف دنیا موبائل فون کی شعاؤں (Mobile Phone Rays) کے ذریعے دماغ قابو کرنے پر تحقیق کررہی ہے۔ 7 مئ 2008 کو امریکی سائنسی میگزین "Scientific American"  نے مشہور امریکی ماہر نفسیات ڈاکٹر ڈگلس فیلڈس کا ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس میں اس موضوع کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔

مجھے تو حیرانی اس بات پر ہورہی ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں جہاں انٹرنیٹ نے معلومات تک رسائی نہایت آسان بنادی ہے ہم دنیا سے اس قدر بے خبر کیسے ہیں؟
ڈاکٹر مارک فلپس نے 1995 میں اپنی کتاب "Trance Formation of America" میں یہ بات کہی تھی:
"لوگ اب دماغ قابو کرنے کی اس حقیقت  کو جان کر جاگنا شروع ہوگۓ ہیں۔"

اب اندازہ کیجیۓ کہ امریکی شہری آج سے 25 سال پہلے ہی اس سازش کو جان گۓ تھے اور آج 25 سال بعد ہمارا کیا حال ہے؟ ہم تو آج تک یہود و نصاری کی سازشوں سے بے خبر ظلمت کے اندھیروں میں خواب غفلت کی نیند سورہے ہیں۔ اوپر سے ہمارے مزاج میں اتنی بدتمیزی ہے کہ اگر ‏علامہ صاحب جیسے کوئی عالم دین تحقیق کرکے کفار کے مذموم مقاصد سے ہمیں آگاہ  کریں اور ہمیں جگانا چاہیں تو ہم ان پر طعن و تشنیع کریں؟ ان  کی توہین کریں؟ بہت افسوس ہوتا ہے ایسی سوچ پر۔
ویکسین اور مائیکرو چپ والی بات پر تنقید کے علاوہ واحد عالمی ڈیجیٹل کرنسی والی بات پر بھی کچھ لوگوں کو بہت اعتراض ہوا کہ "یہ کیسے ممکن ہے کہ دنیا بھر میں اچانک یہ نظام نافذ ہوجاۓ؟"

یہ نظام اچانک نافذ نہیں ہوگا بلکہ دنیا بھر میں ایسی صورتحال پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کے پیش نظر یہ نظام متعارف کروایا جاۓ گا اور عالمی حکومتیں حالات سے مجبور ہوکر اسے قبول کرلیں گی۔ 26 مئ 2020 کو امریکی کاروباری میگزین فارچون نے ایک آرٹیکل شائع کیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ دنیا بھر کہ کاروباری ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ کورونا وائرس کے پیش نظر اب رقم کی ادائیگی نقد کے بغیر ہی ہوا کرے گی کیونکہ ماہرین صحت نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ کرنسی نوٹ سے کورونا وائرس مزید بڑھنے کا خدشہ ہے۔ کرنسی نوٹ کی ملک میں گردش کو روکنے کے لیے چائنا اور امریکہ میں اقدامات شروع کیے جاچکے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ڈیجیٹل کرنسی کے بہت سے فوائد ہیں مگر یہ بات بھی ذہن نشین کرلیجیۓ کہ یہ خطرات سے خالی نہیں اور اسی فکر کے تحت علامہ صاحب نے عوام کو آگاہ کرنا مناسب سمجھا تھا۔ ڈیجیٹل کرنسی کی حفاظت کے لیے کیے جانے والے اقدامات تسلی بخش نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں اس پر پابندی عائد ہے۔ گذشتہ برس مئی میں برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹرز اور امریکی خبررساں ایجنسی واکس نے رپورٹس شائع کی تھیں جس کے مطابق امریکہ میں 2019 کی پہلی سہ ماہی میں 1 بلین ڈالر کی ڈیجیٹل کرنسی کی چوری ہوئی جب کہ 500 ملین ڈالر کی ڈیجیٹل کرنسی کا نقصان دھوکا دہی کی صورت میں ہوا۔
اسی فکر کے پیش نظر علامہ صاحب نے امت مسلمہ کو آگاہ کرنا ضروری سمجھا اور اس تقریر کا ہرگز مقصد لوگوں کو احتیاط سے دور کرنا یا ڈاکٹرز سے بدظن کرنا نہیں تھا۔ علامہ صاحب ہمیشہ  کورونا وائرس کے معاملے میں عوام الناس کو احتیاط اور سمجھ سے کام لینے کی ترغیب دیتے رہتے ہیں اور جہاں تک بات رہی ڈاکٹرز کی تو علامہ صاحب نے ہمیشہ ملک و قوم کے ان وفادار سپاہیوں کو ہمیشہ سراہا ہے جنہوں نے ان مشکل حالات میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر ملک کو بڑی تباہی سے بچایا ہے بلکہ 25 مارچ 2020 کو علامہ صاحب نے ڈاکٹرز کے لیے ایک پیغام بھی ریکارڈ کروایا تھا جس میں انہیں سلام پیش کیا گیا تھا۔ علامہ صاحب نے اگر کسی کے خلاف بات کی ہے تو یہود و نصاری کی سازشوں کے خلاف اور اس نظام کے خلاف جو اسلام دشمن قوتوں کی معاونت کررہا ہے۔






No comments:

Post a Comment